حضرت اُمِّ ہشام بنتِ حارثہ رضی اللہُ عنہا

تذکرۂ صالحات

حضرت اُمِّ ہشام بنتِ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا

*مولانا وسیم اکرم عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2022ء

حضرت اُمِّ ہشام رضی اللہ عنہا صحابیہ ہیں۔ آپ کا تعلق قبیلۂ انصار سے ہے۔[1] آپ کے والدِ ماجد مشہور صحابیِ رسول حضرت حارثہ بن نعمان  رضی اللہ عنہا  ور والدہ صحابیۂ رسول حضرت اُمِّ خالد بنتِ خالد  رضی اللہ عنہا  ہیں۔  [2]

حضرت اُمِّ ہشام رضی اللہ عنہا کا شمار بیعتِ رضوان میں شرکت کرنے والی خوش نصیب خواتین میں ہوتا ہے۔[3] آپ حضرت عمرہ بنتِ عبد الرّحمٰن رضی اللہ عنہا کی ماں  شریک بہن ہیں[4] جو   فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا  کی تربیت یافتہ شاگردہ اور تابعیہتھیں ، نیز ان سے احادیث بھی روایت کرتی تھیں۔[5]

حضرت اُمِّ ہشام رضی اللہ عنہا کو نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے براہِ راست احادیثِ مبارَکہ روایت کرنے کا شرفِ عظیم  بھی نصیب ہوا۔ آپ سے احادیث روایت کرنے والوں میں آپ کی ہمشیرہ حضرت عَمرہ ، محمد بن عبد الرّحمٰن ، [6]عبد الرّحمٰن بن سعد ، خُبیب بن عبد الرّحمٰن ہیں [7]جبکہ آپ کی روایت کردہ احادیث امام مسلم ، امام ابو داؤد اور امام ابنِ ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں جمع کی ہیں۔[8]

حضرت اُمِّ ہشام رضی اللہ عنہا کو قراٰنِ کریم کی سورۂ قٓ مکمل حفظ تھی ، چنانچہ فرماتی ہیں: میں نے سورۂ قٓ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارَک زبان سے سُن کر ہی یاد کی ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سورت کو ہر جمعہ میں خطبے کے اندر پڑھتے تھے۔ [9]مراٰۃ المناجیح میں ہے: اس طرح کہ کسی خطبہ میں سورۂ قٓ کی کوئی آیت اور کسی میں دوسری آیت کیونکہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوری سورۂ قٓ کسی خطبہ میں نہیں پڑھی یہ چونکہ جمعہ میں حاضر رہتی تھیں [10]اس لئے سنتے سنتے اس سورت کی حافظہ ہوگئیں۔[11]

حضرت اُمِّ ہشام  رضی اللہ عنہا  احوالِ مصطفےٰ کو بخوبی جانتی تھیں ، چنانچہ آپ فرماتی ہیں: ہمارا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تنور دو سال یا ایک سال چند ماہ تک ایک ہی تھا۔[12] امام نووی رحمۃُ اللہ علیہ حدیثِ مذکور کے تحت لکھتے ہیں: حضرت اُمِّ ہشام بنتِ حارثہ بن نعمان  رضی اللہ عنہا  کا یہ فرمان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ نہ صرف رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احوال کی پہچان رکھتی تھیں بلکہ انہیں اپنے حافظے کی زینت بھی بنایا ہوا تھا ، نیز آپ کو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مکانِ عالی شان کے ساتھ بھی (خاص) قرب حاصل تھا۔[13]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضان صحابیات و صالحات ، المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] تہذیب التہذیب ، 10/533ماخوذاً

[2] طبقات ابنِ سعد ، 8/325ملتقطاً

[3] اسدالغابۃ ، 7/441ماخوذاً

[4] تقریب التہذیب ، ص1386

[5] سیراعلام النبلاء ، 5/416 ، الاعلام للزرکلی ، 5/72

[6] تہذیب التہذیب ، 10/533

[7] اسدالغابۃ ،  7/441

[8] شرح سنن ابی داؤد ،  4/442 ماخوذاً

[9] مسلم ،  ص336 ،  حدیث:2015

[10] شروع میں عورتوں کو مسجدوں میں آنے کی اجازت تھی مگر بعد میں حضرات صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہ کے اتفاق سے اس سے ممانعت کردی گئی  ،  یہی قول حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  کا ہے ۔ مزید تفصیل کے لئے  فتاوٰی فیض الرسول ،  جلد2/صفحہ635 ملاحظہ کیجئے۔

[11] مراٰۃ المناجیح ، 2/344ملخصاً

[12] مسلم ،  ص336 ، حدیث: 2015

[13] شرح مسلم للنووی ، 6/161 ماخوذاً


Share

Articles

Comments


Security Code