وقت ضائع ہونے کے اسباب

Time management

وقت ضائع ہونے کے اسباب(قسط:03)

*مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی2022

احتساب کا عمل انسان کے رویّے اور عمل کو نکھارتا ہے اور عقل مند انسان اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں کا نوٹس لے کر انہیں دور کرتا ہے اور اللہ پاک کے فضل سے ترقی کا سفر طے کرتا چلا جاتا ہے۔  آئیے! اپنا احتساب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارا قیمتی وقت کس کس طرح اور کن کن کاموں میں ضائع ہو رہاہے۔

(1)نظامُ الاوقات نہ بنانا :

جب ہم نے بہت سے کام کرنے ہوں لیکن نظامُ الاوقات نہ بنایا ہو تو ہر کام کرتے وقت دوسرے کاموں میں بھی ذہن اَٹکا رہے گا اور اطمینان سے کوئی کام نہیں ہو پائے گا اور کبھی ہم ایک ہی کام پر بہت زیادہ وقت لگا دیں گے اور باقی کام رہ جائیں گے۔  اوقات کی ترتیب وتقسیم کا درس ہمیں سنّتِ نبوی سے بھی ملتاہے ،  ہمارے پیارے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے کاموں کانظامُ الاوقات / شیڈول بنا یا ہوا تھا۔

حضور نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا شیڈول :

حضرتِ علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب گھر میں داخِل ہوتے تو اپنے وَقْت کے تین حصّے کر لیتے تھے : (1)ایک حِصّہ اللہ پاک کی عبادت کے لئے (2)دوسرا اپنے گھر والوں کے لئے اور (3)تیسرا حصہ اپنی ذاتِ مبارکہ کے لئے۔  پھر ذاتی وقت کو اپنے اور عام لوگوں کے درمیان تقسیم کر لیتے ،  حاضرِ خدمت ہونے والے قریبی حضرات کے ذریعے غیر حاضر لوگوں تک احکامات پہنچاتے اور نصیحت و ہِدَایَت کی کوئی بات عام وخاص سے پوشیدہ نہ رکھتے۔  اس وقت میں اہلِ فضل (خاندانی شرافت / اسلام میں سبقت کرنے والوں /  زیادہ متقی و پرہیزگاروں) کو ترجیح دیتے اور اس وقت کو دینی ضَرورتوں کے مُطابِق تقسیم فرماتے۔  کسی کو ایک مسئلہ پوچھنا ہوتا ، کسی کو دو اور بعض کو کثیر مَسَائِل پوچھنے کی ضَرورت ہوتی ،  نیز حاضرین کو وہی باتیں پوچھنے کی اجازت عطا فرماتے جن میں اُمت کی بہتری وخیرخواہی ہوتی اور حسبِ حال احکامات ارشاد فرماتے۔[1]

یوں ہی حضرتِ عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہُ عنہ  نے بھی وعظ و نصیحت کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا۔  بخاری شریف میں ہے :  حضرت اِبنِ مسعود  رضی اللہُ عنہ  ہر جمعرات لوگوں کو وعظ فرماتے تھے ،  ایک شخص نے عرض کی :  اے ابو عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ روزانہ ہمیں وعظ کیا کریں۔  آپ نے فرمایا :  میں تمہارے اُکتا جانے کو ناپسند کرتا ہوں ،  میں نے تمہاری رعایت کے لئے دن مقرر کیا جس طرح حضور نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ہمارے لئے دن مقرر فرمایا تھا کہ کہیں ہم اُکتا نہ جائیں۔[2]

(2)ترجیحات کا تعین نہ ہونا :

اگر خوش قسمتی سے نظامُ الاوقات تو بن جائے لیکن یہ لحاظ نہ رکھا جائے کہ کون سا کام زیادہ اہم ہے اور کون سا کم ، کس کام کو پہلے کرنا چاہئے اور کس کو بعد میں ،  نیز کس کام کو کتنا وقت دینا چاہئے ،  تو بھی وقت ضائع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔  عقل ودین کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم ”اہم کاموں“ کو ترجیح دیں۔

بزرگوں کی نظر میں ”اہم کام“ کی اہمیت کس قدر ہوتی ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ حضرت سیّدُنا ربیع بن خَیْثَم  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے20ہزار درہم مالیت کا گھوڑا پاس باندھا اور نماز پڑھنے لگے ،  ایک چور آیا اور گھوڑا کھول کر لے گیا ،  اسےپکڑنےکیلئےآپ نےنہ تونماز توڑی ،  نہ ہی  آپ پریشان ہوئےاور نہ بے چین ،  لوگوں نے افسوس کیااورتسلی دی نیز عرض گزار ہوئے :  آپ نے چور کو للکارا کیوں نہیں؟ تو آپ نے فرمایا : میں نے چور کو گھوڑا کھولتے ہوئے دیکھ لیا تھامگر میں ایسے کام میں مصروف تھا گھوڑے سے زیادہ اہم اور قیمتی تھا ۔[3]

نوٹ : یاد رہے یہ ان بزرگ کا تقویٰ اور اہم کام کو ترجیح دینا ہے اگرچہ اس صورت میں نماز توڑدینا جائزتھا۔ بہارِ شریعت ،  جلد اوّل ،  صفحہ637 پرلکھا ہے :  اپنے یا پرائے ایک درہم کے نقصان کا خوف ہو ،  مثلاً دُودھ اُبل جائے گا یا گوشت ترکاری روٹی وغیرہ جل جانے کا خوف ہو يا ایک درہم کی کوئی چیز چور اُچکا لے بھاگا ،  ان صورتوں میں نماز توڑ دینے کی اجازت ہے۔[4]

(3)دوسروں کے تجربات سے نہ سیکھنا :

دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے بجائے نئے سرے سے وہی تجربات دُہرانا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔  ظاہر سی بات ہے کہ اگر کسی کام / چیز کا تجربہ و مشاہدہ ہوچکا اور اس کے نتائج سامنے آچکے تو اب بلاوجہ اس کا دوبارہ تجربہ بربادیِ وقت ہی کہلائے گا۔

اگر کسی میدان میں لوگ تجربات کرکے کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں تو ایسے لوگوں کے حالات پڑھ کر ،  ان کی باتیں سُن کر ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے یا یوں کہہ لیں کہ جس فیلڈ میں جانا چاہتے ہیں اُس فیلڈ کے کامیاب   لوگوں کے شب و روز کی اسٹڈی کی جائے ،  اگر انہوں نے اپنی فیلڈ کے تجربات خطاب ،  کتاب یا کسی اور کام کی صورت میں چھوڑے ہیں تو ان سے استفادہ کیا جائے۔  لہٰذا اپنے بڑوں جیسے کامیاب استاد ،  عالم ،  دادا ،  والد ،  تاجر وغیرہ کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں ،  عربی کا مقولہ ہے : اَکْبَرُ مِنْکَ سِنًّا اَکْثَرُ مِنْکَ تَجْرِبَۃً یعنی جو عمر میں تم سے بڑا ہے وہ تجربے میں بھی تم سے بڑا ہے۔

(4)ہر کام خود کرنے کی کوشش کرنا :

کام کو تقسیم کرنے سے کم وقت میں زیادہ کام ہو جاتا ہے ، لیکن ہر کام خود کرنے کی کوشش میں کوئی بھی کام اچھے انداز میں نہیں ہو پاتا اور وقت ضائع ہو جاتا ہے۔  کام کی تقسیم کاری سنّتِ نبوی ہے ، حُضور تاجدارِ ختمِ نبوت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  گھر میں اور سفر میں کاموں کوتقسیم فرما دیا کردیتے تھے اور خود بھی اُس میں حصہ لیتے تھے۔

غزوۂ خندق کے موقع پر جب خندقیں کھودی جارہی تھیں تو یہ کام مختلف صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم پر تقسیم فرمایا اور آپ نے خود بھی اس کام میں شرکت فرمائی ،  یوں ہی ایک سفر میں کھانا پکانے کا موقع آیا تو کام کی تقسیم کاری کے اعتبار سے آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے ذمّہ لکڑیاں جمع کرکے لانے کا کام لیا۔ الغرض وقت بچانے اور بڑے و مشکل کام آسانی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کام کی تقسیم ضروری ہے ورنہ ہر کام خود کرنے اور ہر چیز کا نئے سِرے سے تجربہ کرنے کا مزاج وقت برباد کرتا ہے۔

(5)فضول و بے فائدہ مشاغل اختیار کرنا :

فضول کاموں ،  بےمقصد تبصروں ،  بےفائدہ بحثوں ،  گپ شپ اور بے ضرورت باتوں سے بھی بہت سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔  حُضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهٗ مَا لَا يَعْنِيْهِ  ترجمہ  :  بندے کے اسلام کی خوبیوں میں سے    ہے کہ وہ  بے کار و بے نفع بات کو ترک کردے۔[5]

سچی بات ہے کہ صحت کی قَدر بیمار جانتا ہے تو وَقت کی قَدر بے حد مصروف لوگ ،  ورنہ ”فارغ“ لوگوں کو کیا پتا کہ وقت کی اہمیت کیا ہے لہٰذا خود کو اچھے کاموں میں مصروف رکھیں۔  چنانچہ سینکڑوں کتب کے مصنف حضرت علامہ اِبنِ جوزی  رحمۃُ اللہِ علیہ  وقت ضائِع کرنے والوں کی صحبت سے پناہ مانگا کرتے تھے۔[6]

روز مرہ کی زندگی میں مختلف مواقع پر دانستہ و نادانستہ طور پر وقت ضائع کیا جارہا ہوتا ہے ،    کئی لوگ نیند سے اُٹھنے کے باوجود کافی دیر تک بستر نہیں چھوڑتے ،  کھانا کھاتے ہوئے بہت زیادہ وقت لیتے ،  کافی دیر آئینے کے سامنے کھڑے رہتے ، راتوں کو گھنٹوں فضول بیٹھک لگاتے ہوٹلوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔  کہیں چائے پینے بیٹھے تو فضول و بے کارباتوں جیسے ملکی و سیاسی حالات اور میچوں پر تبصروں میں گھنٹوں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایسے   لوگوں  کی اصلاح ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہوتی ہے۔  شاید ایسوں ہی کے متعلق کہا گیا ہے :  ”سوتے ہوئے کو جگانا آسان مگر جاگے ہوئے کو جگانا مشکل ہے۔ “

(6)کل کر لوں گا کی عادت :

آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت کی وجہ سے کوئی بھی کام وقت پر نہیں ہو پاتا اور وقت بے مقصد ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک دھوکا ہے کہ ”کل کریں گے۔ “کسی نے بڑی اچھی بات کہی ہے : عقل مندوں کی لغت میں ”کل“ کا لفظ نہیں ہوتا اور بے وقوفوں کے رجسٹر اس سے بھرے پڑے ہیں۔  یوں ہی بہت سے ناکام لوگ کہتے ہوئے ملیں گے :  ہم نے اپنی عمر ”کل“ کا پیچھا کرتے ہوئے کھودی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود لی۔

بہرحال کاموں کے بہترین اور عمدہ نتائج کے حصول میں ایک بڑی رُکاوٹ ٹال مٹول اور سستی ہے ، یہ ایسا مرض ہے جس کو اپنی ذات سے دُور کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اِس مرض سے غیر ذمّہ داری کے جراثیم پر ورش پاتے ہیں جس کے سبب سخت نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنا انمول وقت ضائع ہونے سے بچائیں اور اپنے کاموں کو اچھے

طریقے سے مکمل کریں تو اپنی طبیعت سے سستی ،  ٹال مٹول ،  کام کو مؤخر کرنے (Procrastination) کی عادت اور ”پھر کبھی“ والا مزاج ختم کرنا ہوگا اور زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے ”ابھی“ اور ”فوراً“ والا فارمولا نافذ کرنا ہوگا۔  مشکل کاموں کو ایک طرف کرنے کے بجائے چیلنج سمجھ کر جلد انجام دینے کی کوشش کریں۔

(جاری ہے۔ ۔ ۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ،  سینئر مترجم ،  شعبہ تراجم ،  المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] شمائل محمدیہ ، ص192 ، حدیث:319

[2] بخاری ، 1/42 ، حدیث:70

[3] احیاء العلوم ، 4/349

[4] ردالمحتار ، 2/513 ،  فتاویٰ عالمگیری ،  1/109

[5] ابنِ ماجہ ، 4/344 ، حدیث:3976

[6] قیمۃالزمن عند العلماء ،  ص58


Share

Articles

Comments


Security Code