Book Name:Iman Ke Dako
والا، ہر تعریف کے لائق ہے۔
یعنی مسلمانوں نے اِن غیر مسلموں کا بگاڑا کچھ نہیں ہے، بَھلا حضرت بلال رَضِیَ اللہ عنہ نے اُمَیَّہ کا کیا بگاڑا تھا...؟ حضرت عمّار بن یاسِر رَضِیَ اللہ عنہ نے ابوجہل کا کیا نقصان کیا تھا؟ کچھ بھی تو نہیں۔ بَس یہ لوگ جلتے تھے، انہیں بس یہی تکلیف تھی کہ یہ لوگ اللہ واحِد و قہار پر اِیْمان کیوں رکھتے ہیں؟ تَوحِیْد کو کیوں مانتے ہیں؟ مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا کلمہ کیوں پڑھتے ہیں؟([1]) بس اسی تکلیف، اسی جلن کی وجہ سے یہ لوگ مسلمانوں کے خِلاف سازشیں رَچاتے رہتے ہیں اور بَھرپُور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان اپنا دِین چھوڑ کر ان جہنمیوں کی صَفْ کھڑے ہو جائیں۔
یہ تَو ہے خطرہ جو ہمارے اِیْمان کو ہر وقت لاحق ہے کہ اتنے سارے ڈاکو ہمارا اِیْمان چھین لینے کے لیے جھپٹ رہے ہیں۔ اب ہم نے کرنا کیا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا:
فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پارہ:1، سورۂ بقرہ:109)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:تو تم (اِنہیں )چھوڑدو اور (اِن سے) درگزر کرتے رہو۔
عَفْو کا لُغْوی معنیٰ ہوتا ہے: چھوڑ دینا۔ صَفْح کا لُغْوی معنیٰ ہوتا ہے: مُنہ پھیر لینا۔([2]) یعنی اے مسلمانو! تم اِن کو چھوڑ دو، جو کرتُوت کرتے ہیں فی الحال کرنے دو اور اپنا اِیْمان بچانے کے لیے یہ کرو کہ ان کی طرف سے مُنہ پھیر لو، اس کی طرف تَوَجُّہ ہی نہ کرو!
حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ (پارہ:1، سورۂ بقرہ:109)
تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان:یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے ۔