$header_html

Book Name:Yai Baray Karam Ke Hain Faisalay

خط لکھا ہے۔ چنانچہ حاسِد نے اُس سے وہ خط لیا اور کہا: آپ گھر جائیے! میں یہ خط سپاہی تک پہنچا دُوں گا۔ اب یہ خط لے کر سپاہی کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ابھی میں خط سپاہی تک پہنچاؤں گا، سپاہی فورًا ہی بہت سارا اِنْعام میرے حوالے کر دے گا۔ مگر افسوس! یہ جیسے ہی سپاہی کے پاس پہنچا، سپاہی نے خط پڑھا اور اس کے گلے پر تلوار رکھ لی، اب یہ لاکھ چِلّایا کہ یہ خط میرے نام کا نہیں ہے، فُلاں کے نام کا ہے۔ مگر سپاہی بولا: خط تم لائے ہو اور تمہاری ہی گردن مارنے کا حکم ہے۔ لہٰذا سپاہی نے فورًا اس کا سَر تَن سے جُدا کر دیا۔

اب اگلے دِن وہ چہیتا شخص حَسْبِ مَعْمُول دربارِ شاہی میں پہنچا۔ بادشاہ نے دیکھا تو حیران  ہو کر پوچھا: تم خط لے کر نہیں گئے تھے۔ اس نے سارا واقعہ بتایا، اب بادشاہ نے بتایا کہ وہ تو تمہارے بارے میں کہتا تھا: تم کہتے ہو کہ میرے مُنہ سے بدبُو آتی ہے۔ اسی لیے تم نے میرے قریب آ کر اپنے مُنہ پر ہاتھ رکھا تھا۔ یہ شخص بولا: بادشاہ سلامت! اس دِن تو میں نے کچا لہسن کھا لیا تھا، میں اپنے مُنہ کی بُو سے آپ کو بچانا چاہ رہا تھا۔

اب مُعَاملہ کھل چکا تھا کہ اَصْل میں وہی شخص حاسِد تھا، جسے اس کے حَسَد کی سزا ملی اور وہ موت کے گھاٹ اُتَر گیا۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھیے! کتنا سبق آموز واقعہ ہے، جو بندہ حَسَد کرتا ہے، اس کا انجام ایسا ہی بھیانک ہوتا ہے، وہ اپنے ہی حَسَد میں جلتا بھنتا رہتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک نے جسے جو مَقام عطا فرمایا ہے، جسے جو عزّت دی ہے، جسے جو مال، دولت، نعمت عطا فرمائی ہے، ہم اللہ پاک کی تقسیم پر راضِی رہیں، کبھی کسی کے ساتھ بھی حَسَد نہ کریں۔ وہ


 

 



[1]...حلیۃُ الاولیاء، بکر بن عبد اللہ المزنی، جلد:2، صفحہ:259، رقم:2154۔



$footer_html