Book Name:Yai Baray Karam Ke Hain Faisalay
بادشاہ اس کی بہترین نصیحتوں کی وجہ سے اسے بہت مَحْبُوب رکھتا تھا۔ بادشاہ کی طرف سے دی جانے والی عزّت و محبّت دیکھ کر ایک درباری کو اس شخص سے حَسَد ہو گیا۔ ایک دِن اُس حاسِد نے حسَد کی آگ میں جَل کر یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس شخص کو بادشاہ کی نظروں میں گِرا کر رہوں گا۔ چنانچہ اس نے سازش رچائی، بادشاہ کے پاس گیا، کہا: بادشاہ سلامت! آپ کا فُلاں چہیتا شخص کہتا ہے: بادشاہ کے مُنہ سے بہت بدبُو آتی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ کہا: کل اسے اپنے قریب بُلا کر دیکھیے! یہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لے گا۔
اب ادھر تو اس نے بادشاہ کے کان بھر دئیے! دوسری طرف اس بادشاہ کے چہیتے کو اپنے گھر دعوت پر بُلایا اور اسے بہت سارے کچے لہسن والا سالن کھلا دیا۔ اس نے وہ کچے لہسن والا سالن کھایا، اس کے مُنہ میں بدبُو ہو گئی، اب یہ شاہِی دربار میں پہنچا، اُدھر بادشاہ سلامت کے تو کان بھرے جا چکے تھے، چنانچہ بادشاہ نے اسے اپنے قریب بُلایا، اس کے مُنہ میں تو بدبُو تھی، لہٰذا اس نے اپنے مُنہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ بادشاہ سلامت کو لہسن کی بُو نہ پہنچے۔ اُدھر بادشاہ نے سمجھا کہ یہ واقعی سمجھتا ہے کہ میرے مُنہ سے بدبُو آتی ہے۔
یہ سوچ کر بادشاہ تو غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ بادشاہ نے فورًا ایک خط لکھا کہ اس خط کو لانے والے کی فورًا گردَن اُڑا دو، اس کی لاش میں بُھس بھر کر ہماری طرف روانہ کرو! یہ خط اسی چہیتے کو دیا اور کہا: یہ خط فُلاں سپاہی کے پاس لے جاؤ!
اُس شخص کو کیا مَعْلُوم تھا کہ خط میں کیا لکھا ہے؟ چنانچہ خط لے کر سپاہی کی طرف چل پڑا، اُدھر حاسِد نے سمجھا کہ شاید میرا حربہ کام نہیں آیا، بادشاہ نے اسے اِنْعام دینے کے لیے