Book Name:Yateemon Ka Aasra Hamara Nabi
اے مَحْبوبِ ذِیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ اُس کو اپنے دامنِ رحمت میں لے لیجیے!([1])
اگر ہم اِسلام سے پہلے کے زمانے کی تاریخ پڑھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اُس زمانے کی بڑی بڑی بُرائیوں میں سے ایک بُرائی یتیموں کے حقوق پامال کرنا بھی تھی۔بیچارے یتیم جن کے اَبُّو دُنیا سے چلے جاتے * اُن کو طرح طرح سے ستایا جاتا تھا * اُن پر ظُلْم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے * بُری نظروں سے دیکھا جاتا تھا * مُعَاشرے میں اُن کو کوئی اَہمَیَّت نصیب نہیں ہوتی تھی * اگر والِد وراثت میں مال چھوڑ کر جاتا تو اُس پر ناحق قبضہ جما لیا جاتا تھا * چچا، تایا جو یتیم کا سہارا بن سکتے تھے، وہی اُس کے حقوق پامال کرتے تھے * یتیم بیچارہ نابالغ بچہ ہوتا ہے، اُسے زیادہ سمجھ نہیں ہوتی، اُس کی ناسمجھی کا لوگ ناحق فائدہ اُٹھاتے، اُس کا مال اپنے قبضے میں لیتے اور کہتے: بیٹا! بڑے ہو جاؤ گے تو تمہارا مال تمہیں لَوٹا دیا جائے گا، پِھر لوٹاتے نہیں تھے * وراثت کا قیمتی مال کوڑیوں کے دام سے خرید لیا کرتے تھے * اگر کوئی یتیم بچّی ہوتی، اُس بیچاری کا تو حال ہی بُرا ہو جاتا تھا، قریبی رشتہ دار اُس کے مال کے لالچ میں اُس سے نِکاح کر لیتے، مال پر قبضہ جماتے، جب مال ہڑپ کر لیتے، پِھر اسے یا طلاق دے دیتے یا دھکے کھلاتے رہتے تھے * دورِ جاہلیت میں فیصلے اِنْصاف کی بنیاد پر نہیں، طاقت کی بنیاد پر ہوتے تھے، بیچارہ یتیم تو بےسہارا ہوتا ہے، اُس کے اپنے بھی ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں، اُس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی، لہٰذا کوئی اُس کا پُرسانِ حال نہیں تھا، کوئی اُس کی فریاد سُننے والا مُیسَّر نہیں آتا تھا۔