Book Name:Yateemon Ka Aasra Hamara Nabi
اُس کے کام کرے، اُس کا بار اُٹھائے...؟ نہیں دیکھا ہو گا، نہیں سُنا ہو گا، دیکھیں گے کیسے؟ سُنیں گے کیسے؟ ایسا ہوتا ہی نہیں ہے، غُلام خِدْمت کرتے ہیں، آقا خِدْمت کرواتے ہیں مگر یہ کس شان کے آقا ہیں...!!
ایسا تو کہیں سُنا، نہ دیکھا بندوں کا اُٹھائیں بار آقا
جن کی کوئی بات تک نہ پُوچھے اُن پر تمہیں آئے پیار آقا
ہو جانِ حَسَن نثار تجھ پر ہو جاؤں ترے نثار آقا([1])
اللہ پاک مَحْبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا صدقہ ہم غُلاموں کو نصیب فرمائے، کاش! ہم بھی غریبوں، مسکینوں، بےسہاروں کی مدد کرنے والے بن جائیں۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں بھی یتیموں کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا * یتیم بچے کو اُس کی یتیمی کا احساس دِلانا * اُس کے ساتھ بُرا سُلُوک کرنا * اپنی اَوْلاد اور یتیم بچے کے درمیان فرق کر کے،اُس کا دِل دُکھانا تو معمول کی باتیں ہیں، ایسے بھی نادان ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو جان بُوجھ کر یا اَنجانے میں یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد اِلْیاس عطاؔر قادری دَامَتْ بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:عِلْمِ دین سے دُوری اور جہالت کے سبب عموماً خاندانوں میں تَرکہ تقسیم نہیں کیا جاتا، اکثر وُرَثاء میں یتیم بچے بچیاں بھی شامِل ہوتے ہیں اور لوگ بِلا جھجک اِن یتیموں کا مال کھاتے پیتے اور ہر طرح سے استِعمال کرتے ہیں