Book Name:Jane Pehchane Nabi
تیز بارش شروع ہو گئی۔ اِس موقع پر اَبُوطالِب نے کہا تھا:
وَاَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْاَرَامِلِ
ترجمہ: اور وہ چمکدار چہرے والےہیں کہ جن کے وسیلے سے بارش مانگی جاتی ہے، وہ یتیموں کا سہارا اَور بیواؤں کے لیے پناہ ہے۔([1])
مولانا حَسَن رضا خان صاحِب رحمۃُ اللہ علیہ نے کیا خُوب کہا:
بے یارو مددگار جنہیں کوئی نہ پوچھے ایسوں کا تجھے یار و مددگار بنایا([2])
نام اُن کا لیا، کام اپنا ہو گیا
منقول ہے: (مراکش کے شہر) فاس میں ایک نیک عورت رہتی تھی، اُس کی عادَت تھی کہ جب اُسے کوئی تنگی یا پریشانی دَرْپیش ہوتی تو وہ دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھتی اور آنکھیں بند کر کے پیار سے کہتی: مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ۔ (بس نامِ مُحَمَّد کی بَرَکت سے اُس کی پریشانی دُور ہو جاتی) ۔ جب اُس عورت کا انتقال ہوا تو کسی رشتے دار(Relative) نے اُسے خواب میں دیکھ کر پوچھا: آپ نے قبر میں سُوال کرنے والے 2 فرشتوں مُنْکَر نَکِیْر کو دیکھا؟ اُس نے جواب دیا: ہاں! وہ میرے پاس آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے اپنی عادَت کے مُطَابق دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ کر کہا: مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ۔ جب میں نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو دونوں فرشتے جا چکے تھے۔([3])