Book Name:Jane Pehchane Nabi
لائیں گے، اللہ پاک! ہم اُن کے وسیلے سے دُعا کرتے ہیں ، ہمیں دُشمن پر فتح عطا فرمایا۔ جب یہ لوگ یہ دُعا مانگ لیتے تو اللہ پاک ہاری ہوئی جنگ میں اُنہیں فتح عطا فرما دیتا تھا۔([1])
اَنْصار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم یعنی وہ خوش نصیب جو پہلے سے ہی مدینے میں رہتے تھے، پِھر اُنہوں نے اسلام قبول کیا اور پیارے مَحْبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم پر اپنے تَنْ، مَنْ، دَھنْ وار دئیے! اُن خوش نصیب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عنہم کے اِیمان قبول کر لینے کا ایک سبب بھی یہی تھا۔ یہ چونکہ مدینے میں (یعنی اس وقت جو یثرب تھا، وہاں) رہتے تھے، وہاں کے یہود اُنہیں بات بات پر کہا کرتے تھے: بَس آخری نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لانے ہی والے ہیں، جب وہ تشریف لے آئیں گے، ہم اُن کی غُلامی اِختیار کریں گے، پِھر ہمیں تم پر غلبہ مِل جائے گا۔
چونکہ اَنْصار یہود سے یہ باتیں سُنتے ہی رہا کرتے تھے، لہٰذا جب پیارے آقا، مکی مَدَنی مُصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم تشریف لے آئے، اَنْصَار نے خبر سُنتے ہی آپ کا کلمہ پڑھ لیا۔([2])
اِن بنی اسرائیل کا حال کیا ہوا...؟ اللہ پاک فرماتا ہے:
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ٘ (پارہ:1، سورۂ بقرۃ:89)
تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان :تو جب ان کے پاس وہ جانا پہچانا نبی تشریف لے آیا تو اس کے مُنکر ہو گئے۔
یعنی بنی اسرائیل کو چاہیے تو یہ تھا کہ مَحْبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے قدموں پر نثار ہو