Mata e Ghurur (Dhokay Ke Saman) Ka Sauda

Book Name:Mata e Ghurur (Dhokay Ke Saman) Ka Sauda

ہیں تو آپ نے دیکھا ہو گا، جو اَہَم بات لکھتے ہیں، اُس کا حوالہ دیتے ہیں، مثلاً حدیث شریف لکھی تو حوالہ دیں گے: یہ حدیثِ پاک بُخاری شریف کی ہے۔حدیثِ پاک کی وضاحت کریں تو اُس کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ یہ شرح مثلاً فَتْحُ البَارِی میں ہے۔ یعنی جو بھی اَہَم بات ہو اور اُسے پختہ تَرِین کرنا ہو تو اُس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔  اللہ  پاک جو خُود سب سچوں سے سچا ہے، اُس کی بات تو خُود ہی پختہ تَرِین ہے،  اللہ  پاک نے کیا حوالہ دینا ہے؟ سب سے معتبر تَرِین حوالہ خُود قرآنِ پاک ہے لیکن قرآنِ کریم کا اُسْلُوب دیکھئے، جب فرمایا:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ(۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ(۱۷)

(پارہ:30، الاعلیٰ:16و17)                                                                                                                                                     

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہواور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

اِس بات کی مزید اَہمیت بڑھانے کے لیے  اللہ  پاک نے بھی حوالہ ذِکْر کیا، فرمایا:

اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰىۙ(۱۸) صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى۠(۱۹) (پارہ:30، الاعلیٰ:18و19)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:بیشک یہ بات ضرور اگلے صحیفوں میں ہے، اِبراہیم اور مُوسیٰ کے صحیفوں میں۔

یعنی یہ جو بتایا جا رہا ہے کہ تُم دُنیا کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے۔ یہ بات صِرْف قرآنِ کریم میں نہیں ہے، پہلے صحیفوں میں بھی لکھی تھی، حضرت اِبْراہیم علیہ السَّلام پر جو صحیفے نازِل ہوئے، حضرت مُوسیٰ علیہ السَّلام پر جو تَوْرَات نازِل ہوئی، اُس میں بھی یہ بات یُوں ہی لکھی تھی کہ لوگ دُنیا کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے۔