$header_html

Book Name:Quran Ke Sath Hamara Taaluq

یعنی مثال بیان کرنا بات سمجھانے کے لئے ہوتا ہے، کسی چیز کا جیسا حال ہو گا، ویسی ہی اس کے لئے مثال دی جائے گی، بڑی چیز کی مثال بڑی چیز سے، چھوٹی چیز کی مثال چھوٹی چیز ہی سے دی جاتی ہے۔ لہٰذا مثال کو سمجھنے کی بجائے الٹا اس پر اعتراض کرنا محض غلط اور بیجا ہے،یہ تو کمالِ حکمت ہے کہ مثال اَصْل کے مُطابِق ہو، اللہ پاک  حکیمِ مُطلَق ہے، وہ مچھر (مکھی، مکڑی  وغیرہ) چیزوں کے ذریعے مثال بیان فرمانے سے حیا نہیں فرماتا ہے۔([1])اور ایسی کوئی بات قرآنِ کریم میں موجود نہیں ہے۔

یہاں تک تو غیر مسلموں کے اعتراض کا جواب تھا، اب جو لوگ قرآنِ کریم میں دی گئی ان مثالوں کو پڑھتے یا سنتے ہیں، ان کے 2 گروہ ہیں، ان کا ذِکْر کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایا:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-

ترجمہ کنزُ العِرفان:بہرحال ایمان والے تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے

یہ اَہْلِ ایمان کی شان ہے کہ وہ قرآنِ کریم کو پڑھ کر اس پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ قرآنِ کریم کو اپنے رَبِّ کریم  کا کلام مان کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جبکہ

وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-

 ترجمہ کنزُ العِرفان:اور رہے کافر تو وہ کہتےہیں، اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟


 

 



[1]...تفسیر نعیمی، پارہ:1، البقرۃ، زیر ِآیت:26، جلد:1، صفحہ: 239 خلاصۃً۔



$footer_html