Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot
کھوٹے سکّے جہاں چل جاتے ہیں وہ ہے بغداد واں نِکمّوں کے خریدار ہیں غوثِ اعظم!
ہو کرم! حسنِ عمل آہ! نہیں ہے کوئی نہ وظائف ہیں نہ اذکار ہیں غوثِ اعظم!([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! اس ساری گفتگو سے معلوم ہوا؛ کرامت حق ہے،اللہ پاک اپنے محبوب بندوں کو، اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہ علیہم کو یہ شان عطا فرماتا ہے کہ ان سے کرامات کا ظُہور ہوتا ہے، قرآنِ کریم میں بھی کئی کرامات کا ذِکْر موجود ہے، ایسے ہی حدیثِ پاک کی مشہور اور سب سے معتبر کتابوں بخاری شریف اور مسلم شریف میں بھی کئی کرامات کا ذِکْر موجود ہے۔ خُود ہمارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اپنے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو پچھلی اُمّتوں کے ولیوں کی کرامات سُنائیں۔ آئیے! حُصُولِ برکت کے لئے اَحادِیث میں بیان ہونے والی چند کرامات بھی سُن لیتے ہیں:
حدیثِ پاک میں جُرَیج راہِب کی کرامت کا ذِکْر ہے، حضرت جُریج پچھلی اُمّتوں میں ایک وَلی تھے، ایک مرتبہ کسی بدکار عورت نے ان پر گندا الزام لگایا اور اپنے ناجائِز بچے کے متعلق کہا کہ یہ جُرَیْج رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کا بیٹا ہے، اس پر حضرت جُرَیج رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اس بالکل ننھے بچے سے فرمایا: بیٹا! بتاؤ! تمہارا والِد کون ہے؟ وہ بچہ جسے پیدا ہوئے ابھی کچھ ہی گھنٹے ہوئے تھے، اُس نے بول کر بتایا کہ میرا والِد فُلاں ہے۔([2])