Karamat e Auliya Ke Saboot

Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot

تخت حاضِر کر دیا، اس سے معلوم ہوا؛ اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہ علیہم کے لئے زمین سمیٹ دی جاتی ہے، ان کے لئے فاصلے فاصلے نہیں رہتے، یہ سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ لمحہ بھر میں طَے کر لیا کرتے ہیں، یہ بھی کرامت ہے اور یہ کرامت کہاں ذِکْر ہوئی؟ قرآنِ کریم میں۔

امام سیوطی حج پر کیسے پہنچے...؟

الحمد للہ! اس اُمّت کے بھی کئی اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہ علیہم سے ایسی کرامات کا ظُہور ہوا ہے۔ مثال کے طَور پر *امام جَلَالُ الدِّیْن سُیُوْطی شَافعی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ اپنے دور کے بہت بڑے امام، بہت بڑے عالِمِ دِین ہیں۔ آپ کے خادِم  محمد بن علی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک روز امام سُیُوْطی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے مجھے فرمایا: اگر میرے مرنے سے پہلے تم میرا راز (Secret) ظاہِر نہ کرو تو آج عصر کی نماز مکہ مکرمہ میں پڑھنے کا ارادہ ہے۔ میں نے عرض کیا: جی! ٹھیک ہے (یعنی میں راز ظاہِر نہیں کروں گا)۔ چنانچہ امام سیوطی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: آنکھیں بند کر لو! میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ہم تقریباً 27 قدم چلے تھے کہ فرمایا: اب آنکھیں کھول دو! میں نے آنکھیں کھولیں تو ہم مکہ مکرمہ میں جنّتُ الْمَعْلیٰ کے دروازے پر تھے، پھر ہم نے اُمُّ الْمُؤْمِنِیْن حضرت خدیجۃُ الْکُبْریٰ رَضِیَ اللہ عنہا کے مزارِ پاک کی زیارت کی، پھر حرمِ پاک میں پہنچے، طواف کیا، زَم زَم شریف پیا، پھر مقامِ ابراہیم کے قریب بیٹھے رہے، پھر عصر کی نماز پڑھی، یہ سب کچھ کر لینے کے بعد امام سُیُوْطی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے مجھے (یعنی اپنے خادِم محمد بن علی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کو) فرمایا: اگر چاہو تو میرے ساتھ واپس چلو، ورنہ حاجیوں کے ساتھ آجانا۔ میں نے عرض کیا: حضور کے ساتھ ہی چلوں گا۔ چنانچہ ہم جنّتُ الْمَعْلٰی کے دروازے تک آئے، امام سیوطی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے فرمایا: آنکھیں بند کر لو۔