Karamat e Auliya Ke Saboot

Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot

گھبرا کر اُٹھا تو وہاں کوئی ڈاکو وغیرہ نہیں تھا۔

چنانچہ یہ کافی سارا منافع کما کر خوشی خوشی بغداد پہنچا۔ اب سوچنے لگا کہ پہلے غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ سے مِلوں یا شیخ حمّاد رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ سے! اِتّفَاقًا راستے میں ہی شیخ حمّاد رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ مل گئے۔ آپ نے تاجِر کو دیکھتے ہی فرمایا: پہلے جا کر غوثِ اعظم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ سے ملو کہ وہ محبوبِ رَبَّانی ہیں، انہوں نے تمہارے حق میں 17 بار دُعا مانگی تھی، تب کہیں جا کر تمہاری تقدیر بدلی، غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی دُعا کی بَرَکت سے اللہ پاک نے تمہارے ساتھ ہونے والے واقعے کو بیداری سے خواب میں منتقل کر دیا۔([1])

کِھلا میرے دِل کی کلی غوثِ اعظم         مٹا قلب کی بے کلی غوثِ اعظم

نہیں کوئی بھی ایسا فریادی آقا              خبر جس کی تم نے نہ لی غوثِ اعظم

صدا گر یہاں میں نہ دُوں تو کہاں دُوں      کوئی اور بھی ہے گلی غوثِ اعظم

جو قسمت ہو میری بُری اچھی کر دے       جو عادَت ہو بد کر بھلی غوثِ اعظم([2])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ!                                               صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد

کرامت حق ہے

اے عاشقانِ رسول! اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہ علیہم کی شان بہت بلند ہے، یہ نیک بندے اللہ پاک کے بڑے محبوب اور پیارے ہوتے ہیں، رَبِّ کائنات ان کو بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے، انہی میں سے ایک انعام کرامت بھی ہے۔ کرامت یقیناً حق ہے، زمانۂ نبوت سے لے کر آج تک کبھی بھی اس مسئلے میں اَہْلِ حق کے درمیان اختلاف (Disagreement)


 

 



[1]...بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعا...الخ، صفحہ:64 خلاصۃً۔

[2]...سامانِ بخشش، صفحہ:119-120 ملتقطًا۔