Surah Al Maun

Book Name:Surah Al Maun

ہیں اور لوگ بِلا جھجک ان یتیموں کا مال کھاتے پیتے اور ہر طرح سے استِعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ سب ناجائز ہے اور اس کی طرف کسی کی  توجُّہ ہی نہیں ہوتی۔ یاد رکھئے ! مَیَّت کے  وُرَثاء میں سے اگر کوئی یتیم ہو تو جب تک  ترکہ تقسیم کر  کے یتیم کا حصَّہ الگ نہ کیا جائے تب تک اس میں سے میت کے ایصالِ ثواب کے لئے صدقہ و خیرات وغیرہ بھی نہیں کر سکتے۔پارہ : 4 سُوْرَۂ نِسآء کی آیت نمبر 10میں خُدائے رحمٰن کا فرمانِ عالی شان ہے :

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) 

 ( پارہ : 4 ، سورۂ نساء : 10 )

تَرجَمہ کَنْزُ الْعِرْفان : بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔

اِس آیتِ مُبارکہ کے تحت مشہور مفسرِ قرآن ، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا ( متعدد صورتوں میں ) حرام ہوا تو علیحدہ طور پر کھانا بھی ضرور حرام ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کو ہبہ ( یعنی تحفہ )  دے سکتے ہیں مگر اس کا ہبہ لے نہیں سکتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وارثوں میں جس کے یتیم بھی ہوں اس کے ترکہ سے نیاز ، فاتحہ خیرات کرنا حرام ہے اور اس کھانے کا استعمال حرام۔ اوّلاً مال تقسیم کرو پھر بالغ وارث اپنے مال سے خیرات کرے۔

مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : جب میت کے یتیم یا غائب وارث ہوں تو مالِ مشترک میں سے اس کی فاتحہ تیجہ وغیرہ حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے بلکہ پہلے تقسیم کرو  پھر کوئی بالغ وارث اپنے حصّہ سے یہ سارے کام کرے ورنہ جو بھی  ( جانتے