Book Name:Qayamat Kay Din Kay Gawah

تُو بس رہنا سدا راضی ،  نہیں ہے تابِ ناراضی تُو ناخوش جس سے ہو برباد ہے تیری قسم مولیٰ ! ([1])

اے عاشقانِ رسول !  ان دونوں گُنَاہ گاروں کو رَبِّ کریم بخش دے گا ،  گُنَاہوں کے باوُجُود جنّت میں داخِلہ عطا فرمائے گا ،  یقیناً یہ اُس کی رحمت ہے مگر غور کیجئے !  معاملہ کتنا دُشْوار ہے ،  آہ !  روزِ قیامت بہانے نہ چلیں گے ،  آج تو زبان چلا کر دوسروں کی آنکھ میں دُھول جھونک لیتے ہیں ،  اُلٹے پلٹے بہانے بنا کر دِل بہلا لیتے ہیں ،  خُود کو جھوٹی تسلی دے لیتے ہیں مگر آہ !  روزِ قیامت جب رَبِّ قَہّار جَلَّ جَلَالُہٗ کے حُضُور حاضِری ہو گی ،  گُنَاہوں سے لِتھڑا ہوا ،  سیاہ  اَعْمَال نامہ ہاتھ میں تھما دیا جائے گا ،  اس وقت انکار کی کوئی صُورت نہ رہے گی ،  ہمارے اپنے ہی اَعْضا ،  ہمارے ہاتھ ،  ہمارے پاؤں ،  ہماری زبان ،  ہماری کھال ہمارے ہی خِلاف گواہی دے رہی ہو گی ،  اس صُورت میں نجات پا جانا انتہائی دُشوار ہو گا۔ یقیناً قابِلِ رَشْک وہی ہے جسے اللہ پاک اپنی رَحْمت سے جنّت میں  داخِلہ نصیب فرما دے گا۔

امتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ !   بےسبب بخش دے مولیٰ !  ترا کیا جاتا ہے ؟ ([2])

نجات پانے والا قابِلِ رشک ہے

امام حَسَن بصری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں :  تعجب اس بات  پر نہیں کہ ہلاک ہونے والا ہلاک کیسےہوا ؟  تعجب تو اس بات  پر ہے کہ نجات پانے والا نجات کیسے پا گیا ؟ ([3])یعنی روزِ قیامت حساب کتاب کا معاملہ ایسا سخت اور دُشوار ہے کہ اس میں ناکام ہو کر جہنّم کا حق دار بن جانا بہت آسان سی بات ہے مگر نجات پا کر جنّت کا حقدار بننا انتہائی دُشْوار ہے ،  لہٰذا


 

 



[1]...وسائلِ بخشش ،  صفحہ : 97و98ملتقطاً۔

[2]...وسائلِ بخشش ،  صفحہ : 432۔

[3]...آداب حسن بصری لابن جوزی ،  صفحہ : 24۔