Book Name:10 Muharram ul Haram Ki Barkat
پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ واقعہ سے ایک تو حضرتِ امامِ حُسین رَضِیَ اللہ عَنْہ کی شان و شوکت اور بارگاہِ اِلٰہی میں مقام و مرتبہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ابھی آپ کی زبان سے الفاظ نکلے ہی تھے کہ فوراً اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول ہوئے اور وہ گستاخ و بد بخت دنیا و آخرت میں ذلیل و رُسوا ہوا اور آگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر موت کے گھاٹ اُتر گیا۔دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی ہماری دل آزاری کرے یا بدتمیزی کرے ، بے شرمی اور بےحیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدسلوکی کرے ، گالی دے ، یا بےحیائی کی بات کہے تو کوئی انتقامی کاروائی کرنے کی بجائے اپنا معاملہ اللہ پاک کے سپرد کر دینا چاہئے اور اس کی باتوں پر صبر کرنا چاہئے اور صبر کا ذہن بنانے کے لئے ان مقدس ہستیوں پر میدانِ کربلا میں پیش آنے والی مصیبتوں پر غور کرنا چاہئے کہ
میدانِ کربلا میں حضرتِ امامِ حُسین رَضِیَ اللہ عَنْہ پر جان ، مال ، اولاد ، بھوک ، پیاس ، خوف اور طعنے بازی جیسی سب آزمائشیں آئیں ، آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کے نانا جان ، دو عالم کے سلطان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلمہ پڑھنے والے آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کے جانی دشمن بن گئے اور آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے ، آپ کےبھائیوں ، بیٹوں ، بھانجوں اور بھتیجوں کو شہید کیا گیا ، آپ کے رفقا کو تکلیفیں دِی گئیں ، آپ کے خاندان والوں کو ستایا گیا ، مگر پھر بھی آپ ان تمام آزمائشوں میں سرخ رُو ہوئے ، صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے ، رِضائےاِلٰہی پر راضی رہتے ہوئے زبان سے حمدِالٰہی بجا لاتے رہے اور ان بد بختوں کو برابر نیکی کی دعوت اور اسلام کی تعلیمات دیتے رہے ، ایک لفظ بھی بے صبری کا ادا نہ کیاحتّٰی کہ سجدے کی حالت میں اپنی جان کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کردیا۔