Book Name:Seerat e Bibi Khadija tul Kubra
ہوچکی ہے ، بے ہودہ رسومات اس کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ، معاذَاﷲ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ جب تک بہت سارے حرام کام نہ کر لئے جائیں اس وقت تک شادی کی سُنَّت ادا ہو ہی نہیں سکتی مثلاً منگنی ہی کی رسم لے لیجئے! اس میں لڑکا اپنے ہاتھ سے لڑکی کو انگوٹھی پہناتا ہے حالانکہ یہ حرام اور دوزخ میں لے جانے والا کام ہے۔ شادی میں مر د اپنے ہاتھ مہندی سے رنگتا ہے یہ بھی حرام ہے ، مردوں اور عورتوں کی ایک ساتھ دعوتیں کی جاتی ہیں ، یا کہیں برا ئے نام بیچ میں پردہ ڈال دیا جاتا ہے مگر پھر بھی عورتوں میں غیر مرد گھس کر کھانا بانٹتے ، خوب ویڈیو فلمیں بناتے ہیں ، خوب فیشن پرستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، خاندان کی جوان لڑکیاں ناچتیں ، گاتیں اُودھم مچاتی ہیں ۔ اِس دوران مرد بھی بلا تکلف اندر آتے جاتے ہیں ، کچھ بےحیا مرد اور عورتیں جی بھر کر بد نگاہی کرتے ہیں نہ خوفِ خدا نہ شرمِ مصطفے۔
فلمی ریکارڈنگ کے بغیر آج کل شاید ہی کہیں شادی ہوتی ہو۔ اگر کوئی سمجھائے تو بعض اوقات جواب ملتا ہے : واہ!اللہ کریم نے پہلی بچّی کی خوشی دکھائی ہے اور گانا باجا نہ کریں ، بس جی خوشی کے وقت سب کچھ چلتا ہےمعاذَاﷲ۔ یادرکھیے!خوشی کے وقت اللہ کریم کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ خوشیاں زیادہ ہوں ، نافرمانی نہیں کی جاتی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس نافرمانی کی نحوست سے اِکلوتی بیٹی دلہن بننے کے آٹھویں دن روٹھ کر میکے آ بیٹھے اور ساری خوشیاں دُھول میں مِل جائیں یا دھوم دھام سے ناچ گانوں کی دھما چوکڑی میں رُخصت کی ہوئی دلہن9 ماہ کے بعد پہلی ہی ڈیلیوری میں موت کے گھاٹ اُتر جا ئے۔