Book Name:Faizan e Ramzan

غُلاموں پر یہ عبادت فرض کرنے کی باری آئے تو وہ پچھلی اُمّتوں کا حال سُن کر بے تکلف روزہ رکھیں اور انہیں مشقت اور پریشانی نہ ہو۔ ([1])  

پھر ایک اور اعتبار سے اللہ پاک کی عنایت ومہربانی مُلاحظہ کیجئے! ارشاد ہوا :

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-  (پارہ2 ، سورۃالبقرۃ : 184)        

ترجمہ کنز الایمان : گنتی کے دن ہیں۔

مولانامفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : یہ الفاظ بھی اللہ پاک کی کمال عنایت کی دلیل ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رَحْمٰن ورَحیم کو انتہا سے زیادہ اس اُمَّت کی دِل جُوئی منظور ہے۔ اس بات کو ایک مِثَال سے سمجھئے! بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے ، والِد صاحب پہلی دفعہ جب اسے سکول ، مدرسے وغیرہ چھوڑنے جاتے ہیں تو اس کی تسلی وتسکین کے لئے کہتے ہیں : بیٹا! فِکْر مَت کرو! ابھی تھوڑی دیر میں چھٹی ہو جائے گی۔ رَحْمت وشفقت اور عنایات کا یہی قاعِدہ یہاں بھی ہے۔ اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے غُلاموں کو تسلی دی اور فرمایا : فکر مت کرو! روزہ گنتی کے دِن (یعنی صِرْف ایک ماہ) فرض ہے۔ ہاں! دِنوں کی گنتی نہ کرو! روزے کی مشقت پر نگاہ نہ رکھو ، اس کے فوائد پر غور کرو ، روزے رکھو گے تو کیا ملے گا؟ ارشاد فرمایا :

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)  (پارہ2 ، سورۃالبقرۃ : 183)

ترجمہ کنز الایمان : کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔

یعنی روزے کی برکت سے تمہیں تقویٰ جیسی عظیم نعمت مل جائے گی۔ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : روزہ ریاضت اور نَفْس کَشی کی مشق (Practise) ہے ، اِنسان کے اندر 2 قوتیں ہیں جو تمام گُنَاہوں کی جَڑ ہیں ، ایک شہوت ، دوسری غُصَّہ۔ یہ دونوں قُوَّتیں


 

 



[1]...جواہر البیان ، صفحہ : 86بتغیر قلیل۔