Book Name:Faizan e Ramzan

اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے اور اس بیماری کو سَر پر سُوار کر لے ، پریشانی میں ڈوب جائے تو ڈاکٹر کا صِرْف ایک جملہ اس کی پریشانی دُوْر کر دیتا ہے ، ڈاکٹر جب کہتا ہے : پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، موسم تبدیل ہو رہا ہے ، آج کل عموماً لوگ بیمار ہو رہے ہیں ، بس اسی سے اس کی پریشانی دور ہو جاتی ہے۔  اسی طرح روزہ بھی پُر مَشَقَّت عبادت ہے ، سحر سے افطار تک بھوکا رہنا ، چاہے سخت گرمی ہو ، گلا سوکھ رہا ہو ، پانی موجود ہو ، پھر بھی پیاس پر قابُو پانا آسان کام نہیں ہے ، اس لئے اللہ پاک نے پہلے ہی تسلی دے دی کہ اے میرے محبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے غلامو! پریشان نہیں ہونا ، یہ مشقت صرف تمہارے لئے نہیں ہے ، تم سے پہلی اُمَّتیں بھی روزے رکھتی رہی ہیں۔ مولائے کائنات ، اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ فرماتے ہیں : روزہ قدیم (یعنی بہت پُرانی) عبادت ہے ، کوئی شریعت اس کی فرضیت سے خالی نہیں۔

اب اس جگہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ  کا عِلْم ، آپ کی قرآن فہمی اور نکتہ دانی دیکھئے! آپ فرماتے ہیں اگر گہری نظر سے اس آیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اَصْل مَقْصُود یہی تھا کہ روزہ جیسی نہایت نفع بخش عِبَادت صِرْف محبوبِ اکرم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری اُمَّت پر فرض کی جائے لیکن روزہ مَشَقَّت والی عِبَادت ہے ، اس لئے اس اُمَّت پر اللہ پاک کی رَحمت وعنایت کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایسی مَشَقَّت والی عِبادت یکدَم اس اُمَّت پر فرض کر دی جائے ، لہٰذا اللہ پاک نے اپنی حکمتِ کامِلہ سے یہ انداز اختیار فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام تک ہر مَذْہَب ومِلّت میں روزہ فرض قرار دیا تاکہ جب محبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نازوں پَلے