Book Name:Apni islah kesay Karain
عالی وقار ، مدینے کے تاجدار صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم کی خِدْمَت میں حاضِر ہوا اَور دِل کی سختی کی شکایت کی ، اللہ کے حبیب ، دلوں کے طبیب صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم نے فرمایا : اِطَّلِعْ فِی الْقُبُور فَاعْتَبِرْ بِالنُّشُور قبریں دیکھ کر آخرت میں اُٹھنے کے معاملے میں غور وفکر کیا کرو! ([1])
دوسرا کام جو اپنی اِصْلاح کے لئے کرنا ہے وہ ہے : اپنی غلطیوں کی پہچان۔ خدانخواستہ اگر ہمیں جسمانی مَرَض لگ جائے تو ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ، ڈاکٹر چیک اَپ کرتاہے ، بیماری کی علامات دیکھتا ہے ، ضرورت ہو تو ٹیسٹ بھی کرواتا ہے ، پھر جب بیماری کی اَصْل تک پہنچ جاتا ہے تو دوائی (Medicine) دینا شروع کرتا ہے ، یہی حال رُوحانی اَمْرَاض کا بھی ہے ، جب تک اپنی غلطیوں کی پہچان نہ ہو جائے ، اس وقت تک اِصْلاح ہونا نَاممکن ہے۔
یاد رکھئے! خوش فہمی زہرِ قاتِل ہے ، جو بندہ خود کو نیک سمجھتا ہے ، وہ بھلا اپنی اِصْلاح پر توجہ کیسے دے گا؟ بندہ جس وقت خود کو نیک سمجھنے لگے ، اسی وقت سے اس کی ہلاکت کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ اُمُّ المؤمنین ، حضرت عائشہ صدیقہ ، طیبہ ، طاہرہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے سُوال ہوا : انسان گناہ گار کب بنتا ہے ؟ فرمایا : جب وہ خود کو نیک سمجھنے لگے۔([2])
حضرت مالِک بِنْ دینار رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایک روز کسی نے آواز دی : “ اے رِیا کار! “ شاید ہم ہوتے تو اُس کی زبان کھینچ لیتے مگر حضرت مالِک بن دینار رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عاجزی دیکھئے! آپ نے مُڑ کر دیکھا اور فرمایا : 20 سال سے کسی نے میرا اَصْل نام لے کر نہیں پُکارا تھا ، شاباش!