Book Name:Susti-o-Kahili Say Nijat Kasay Milay

کے اَصْل مالِک کو دِرْہَم دے کر ارشاد فرمایا : بازار جاؤ ، ایک درہم کا غَلَّہ (کھانے پینے کا سامان ) خریدو ، گھر پہنچاؤ ، دوسرے دِرْہَم کی کلہاڑی خریدو اَور میرے پاس لے آؤ! وہ صحابی  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  جلدی سے بازار گئے ، غلہ خریدا ، گھر پہنچایا ، کلہاڑی خریدی ، لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئے ، حضرت اَنَس بن مالک  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  فرماتے ہیں : مِعْرَاج کے دولہا ، تاجدارِ انبیا  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نےاپنے ہاتھ مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا دَسْتَہ ڈالا۔

اللہ! اللہ! ایسا آقا بھی زمانے نے نہیں دیکھا ہو گا۔ شان دیکھئے! اِمامُ الْاَنْبِیَا ہیں ، اللہ کے محبوب ہیں ، دو جہان کے آقا ہیں ، مالکِ جَنَّت ہیں ، مالکِ کَوْثَر ہیں ، جبریل  عَلَیْہِ السَّلام  جن کے گھر خادِم بن کر حاضِر ہوتے ہیں ، اللہ پاک نے زمین و آسمان ان کے صدقے پیدا کئے ، ایسی عِزَّت! ایسا رُتبہ...! اس کے باوجود غلاموں کے ساتھ تعلق دیکھئے ،  اپنے ہاتھ مبارک سے کلہاڑی میں دستہ ڈال کر دے رہے ہیں۔

اَرْبابِ نظر کو کوئی ایسا نہ ملے گا

بندے تو مل ہی جائیں گے آقا نہ ملے گا

اے عاشقانِ رسول! حضور اکرم ، نور مجسم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کا اندازِ تربیت بھی دیکھئے! صَحَابۂ کرام  علیہم الرِّضْوَان  وہ ہیں جو حُضُور اَقْدس  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے ایک اشارے پر جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضِر ہو جایا کرتے تھے ، اگر آقائے دوجہاں ، سرورِ ذیشاں  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  اُن صحابی  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو صِرْف فرما دیتے کہ چٹائی اور پیالہ فروخت کر کے کلہاڑی خرید لو ، ان کے لئے یہ فرمانا بھی کافِی تھا ، وہ فرمانِ مصطفےٰ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  پر ضرور عَمَل کرتے لیکن سردارِ انبیا ، محبوبِ کبریا  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے صرف ارشاد نہیں فرمایا بلکہ کر کے دِکھایا ، معلوم ہوا