Book Name:Susti-o-Kahili Say Nijat Kasay Milay

اُٹھے ہی تھے کہ کچن سے آواز آئی : چائے بَن رہی ہے ، پی کر جائیے گا۔ آپ کے دِل میں خیال آئے گا : چائے نہ پی کر گیا تو چائے ضائع ہو جائے گی ، چائے پینے سے نیند اُڑ جائے گی تو نماز اچھی طرح توجہ کے ساتھ پڑھ سکوں گا ، لہٰذا چائے پی کر جانا چاہیے۔ آپ بیٹھ گئے ، چائے پی ، گھڑی دیکھی ، جماعت میں چند منٹ باقِی تھے ، اب آپ جلدی سے باہَر نکلے ، راستے میں آپ کو ایک دوست مِل گیا ، اب دِل میں خیال آئے گا : بڑے دِن بعد دوست ملا ہے ، اسے وقت دینا ضروری ہے ، مسلمان بھائی سے اچھا سلوک کرنا بھی تو نیکی ہے یہ سوچ کر آپ دوست کے ساتھ گپ شپ میں مَصْرُوف ہو گئے ، اتنے میں جماعت نکل گئی ، اب نفس سُستی دلائے گا : جماعت تو نکل چکی ، اب گھر ہی نماز پڑھ لی جائے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر غور کیجئے! ہماری زِندگی میں بےشُمار ایسے مواقع آتے ہوں گے کہ ہم ایسی چھوٹی چھوٹی ، بےمعنی وُجُوہات کی بِنا پر اَہم کاموں سے سُستی کرتے رہتے ہیں * رَشْ میں پھنس گیا تھا * سَر میں دَرْد تھا * مہمان آگئے تھے * بارِش ہو رہی تھی * موسَم خراب تھا * بادَل گھرے ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ ہزار قسم کے بہانے ہمارا نفس ہمیں سکھا رہا ہو تا ہے ، اور زیادہ نقصان کی بات یہ ہے کہ اسے سُستی سمجھا نہیں جاتا ، عموماً لوگ ایسی صُورت میں خود کو تسلی دیتے ہیں ، اے عاشقانِ رسول! ایسا مت کیجئے ، نفس بہانے خور ہے ، آپ اس کے بہانے سُن کر تسلی دیں گے تو یہ مزید بگڑتا جائے گا اور دِن بہ دِن اس کی سُستی میں اِضَافہ ہی ہو گا ، ایسی صُورت میں خود کو تسلی دینے کی بجائے ، خود کو ڈانٹئے ، اپنے آپ پر شرمندگی طارِی کیجئے ، سوچئے! کیا یہ بہانے آپ کو کامیابی دِلا سکتے ہیں؟ کیا ایسی چھوٹی چھوٹی وُجُوہات کی بِنا پر اگر آپ اَہم کام چھوڑ دیں گے یا