Book Name:Siddique akbar ki zihanat

حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو اپنے عبادت خانے لےگئے اور پتھر کے بنے ہوئے جھوٹے خداؤں کے سامنے کھڑا کر کے کہا : بیٹا! یہ ہیں تمہارے بلند وبالا خُدا! انہیں سجدہ کرو! (اَسْتَغْفِرُ اللہ ! اَسْتَغْفِرُ اللہ!) یہ کہہ کر حضرت ابو قحافہ ایک طرف چلے گئے اور کسی دوسرے کام میں مَصْروف ہوئے۔ اب صِرْف صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  ہیں اور سامنے پتھر کی مورتیاں ہیں ، آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  تھوڑا آگے بڑھے ، ایک مورتی کے قریب گئے اور فرمایا : اِنِّیْ جَائِعٌ فَاَطْعِمْنِیْ میں بھوکا ہوں ، مجھے کھانا کھلاؤ! وہ بے جان پتھر تھا ، نہ اس نے بولنا تھا ، نہ بولا۔ صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے دوسرا سُوال کیا : اِنِّیْ عَارٍ فَاکْسِنِیْ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں ، مجھے کپڑے دو!پتھر بھلا کیا بولتا؟ اب حضرت  صدیق اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو جلال آیا ، آپ نے ایک پتھر اُٹھایا اور فرمایا : میں پتھر مارتا ہوں ، اگر خدا ہو تو اپنے آپ کو بچا کر دکھاؤ!

اللہ اَکْبَر! چار سالہ بچہ! اس کے بازؤں میں کتنی طاقت ہو گی؟ کتنی زور سے پتھر مار سکے گا؟ لیکن حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کے بازو کی طاقت دیکھئے!آپ نے مورتی کو پتھر مارا ، فَخَرَّ لِوَجْہِہٖ وہ مورتی آپ کے بازو کی طاقت کو برداشت نہ کر پائی اور منہ کے بَل زمین پر گِر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اس کے گرنے کی آواز سُنی تو  حضرت ابو قحافہ دوڑتے ہوئے آئے ، اپنے باطِل خدا کا حال بےحال دیکھا تو غصے میں حضرت ابو بکر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو ایک تھپڑ لگایا اور بازو سے پکڑ کر گھر لے گئے ، آپ کی والدہ کو جا کر کہا : دیکھو! آج تمہارے لال نے یہ کارنامہ کیا ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ نے سارا واقعہ سُنا تو کہا :  میرے بیٹے کو چھوڑ دیجئے! اس کا کوئی قصور نہیں ، جب یہ پیدا ہو اتھا تو غیب سے آوازآئی تھی : یَا اَمَۃَ اللہِ عَلَی التَّحْقِیْقِ اے اللہ پاک کی سچی بندی ، اِبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْقِ آزاد بیٹا مبارک ہو! اِسْمُہٗ ِفی السَّمَاءِ الصِّدِّیْق آسمان میں اس کا نام صدیق ہے ، وَلِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَّرَفِیْق اور یہ مُحَمَّد