Book Name:Siddique akbar ki zihanat

نے حیاتِ ظاہری میں آخری جنگی فیصلہ یہ فرمایا کہ حضرت اُسامہ بن زید  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کو 700 مجاہدین کا لشکر دے کر ملکِ رُوم کے ساتھ جنگ کے لئے بھیجا ، یہ لشکر ابھی راستے ہی میں تھا کہ نبی پاک  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے وِصَالِ ظاہِری کی خبر ملی ، لہٰذا لشکر واپس آگیا۔ حضور اکرم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے وِصَال کے بعد  وہ قبیلے جن کے دل میں ایمان پکا نہیں تھا یا جو پہلے سے منافق تھے اور اپنا نفاق چھپائے ہوئے تھے ، انہوں نے اِرْتِداد کی راہ اختیار کی اور ایمان سے پھر گئے ، ایسی نازُک صورتِ حال میں صحابۂکرام  علیہم الرِّضْوَان  نے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیقِ اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی خدمت میں عرض کیا : حُضُور! لوگ اسلام سے پھِر رہے ہیں ، ایسی صُورت میں لشکرِ اُسامہ کو جنگ کے لئے بھیجنا مناسب نہیں ، مدینہ منورہ میں مجاہدین کی زیادہ ضرورت ہے۔ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن حضرت صدیق اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے فرمایا : اگر دَرِنْدے ابو بکر کو پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹ کر لے جائیں ، تب بھی میں رسول خدا ، اَحْمد مجتبیٰ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کے بھیجے ہوئے لشکر  کو ہر گز نہیں روکوں گا۔ چنانچہ آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  نے لشکرِ اُسامہ کو روم کی جانِب روانہ کر دیا۔ یہ آپ  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی کمال ذہانت تھی ، جنگی پالیسی کے اعتبار سے اعلیٰ دُور اندیشی تھی۔  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لشکر جہاں سے گزرتا ، وہاں کے لوگ سوچتے : ہم تو مسلمانوں کو کمزور سمجھ رہے تھے ، اگر ایسی حالت میں بھی ان کا لشکر سرحد پر لڑنے کے لئے جا رہا ہے تو یقیناً مدینہ منورہ میں اس سے بھی بڑا لشکر موجود ہو گا!  پھر جب حضرت اُسامہ بِن زید  رَضِیَ اللہُ عَنْہ  رُومی لشکر کو شکست دے کر ، جنگ جیت کر واپس لوٹے تو اِسْلام سے پھرنے والے بہت سے لوگ ڈَر گئے ، ان کے دِل میں اسلام کی ہیبت بیٹھ گئی اور وہ اپنے اِرْتِداد سے توبہ کر کے سچے دِل سے مسلمان ہو گئے۔ ([1])        


 

 



[1]   کَنْزُ العمال ، باب اَوَّل ، فی خِلَافَۃِ الخلفاء ،  حصَّہ : 3 ، جلد : 5 ، صفحہ : 241 ، حدیث : 14062۔