Book Name:Jald Bazi Kay Nuqsanat
کے عیب بتائے یا نصیحت کردے تو اس بیچارے کی شامت آجاتی ہے ، اس پر طعن و تشنیع کےتِیر برسائے جاتے ہیں ، مثلاً جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے آئے بڑے نصیحت کرنے والے ، چار کتابیں کیا پڑھ لی ہیں ، اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھ بیٹھے ہو ، پہلے اپنے آپ کو تو نیک بنالو پھر ہمیں کہنا ، بس بس ہمیں سب پتا ہے ہمیں مت سمجھایا کرو ، چلوچلو اپنا کام کرو۔ وغیرہ
بہرحال اگر کوئی مسلمان ہمیں ہمارے عیب بتائے ، ہمیں نصیحت کرے اور اچھی نِیَّت سے ہماری اصلاح کرے تو ہمیں اس کو اپنا دشمن(Enemy) نہیں بلکہ اپنا ہمدردسمجھتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ، آئیے!اس بارے میں اللہ والوں کا اندازملاحظہ کیجئے ، چنانچہ
امیرُ المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : مجھے وہ شخص محبوب(یعنی پیارا) ہے جو میرے عُیُوب سے مجھے آگاہ کرے۔ (الطبقات لابن سعد ، رقم : ۵۶ ، عدی بن کعب ، ۳ / ۲۲۲)
سیدی اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلیْہ فرماتے ہیں : انصاف پسند تو اُس کے مَمْنُون(یعنی شکر گزار)ہوتے ہیں جو انہیں صَوَاب(یعنی دُرُستی)کی راہ بتائے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص۲۲۰)
(3)تیسری بات یہ معلوم ہوئی!اصلاح کرنے میں اچھےاخلاق اور نرمی کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔ بعض اسلامی بھائی اپنی اورساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کا جذبہ بھی رکھتے ہیں ، گناہوں میں مُبْتَلا لوگوں کی اصلاح کے لئے کُڑھتے بھی ہیں ، خوب انفرادی و اجتماعی کوششیں بھی کرتے ہیں کہ مُعاشرے سے بُرائیوں کا خاتمہ ہواور ہر طرف سُنّتوں کی بہاریں آجائیں ، لیکن سخت لہجے ، بداخلاقی ، غُصّہ ، کڑوے الفاظ ، تنقیدی ذہن اور سب کے سامنے ڈانٹ کرسمجھانے جیسی عادات کے باعث انہیں اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پاتی ، بلکہ اُلٹا نقصان ہی ہوتا ہے ، لہٰذا اگر ہم