Book Name:Sharm-o-Haya Kisy Kehty Hen

تفریح گاہوں میں بے حیائیوں کے مناظر عام ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں۔ آج خواتین کی ایک تعداد ہے جو شرم و حیا کی چادر کو گھر رکھ کر بازاروں میں سرِ عام بے حیائی کو فروغ دیتی نظر آتی ہے۔ اور وہ لوگ جن کی آنکھوں سے شرم و حیا  رُخصت ہوچکی ، وہ ایسیوں کومَعَاذَاللہآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے نظر آتے ہیں۔ پہلے تو فلموں اور ڈراموں کے حیاسوز مناظر صرف  ٹی وی اور سنیما گھروں کی سکرینوں پر ہوتے تھے ، مگر آج موبائل کی سہولت نے ہر ایک کی ان تک رسائی عام اورآسان کر دی ہے۔ آج اجنبی اجنبیہ کے ساتھ اکیلا ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا حالانکہ یہ سخت حرام ہے۔ آج اجنبی اور اجنبیہ باہم ملاقات کرتے ، ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور بے شرمی سے مسکراتے نظر آتے ہیں ، آج شرعی پردے کو پُرانے دور کے رواج میں شمار کیا جا رہا ہے۔  آج مسلمان عورت بن سنور کر بِنا پردے کے باہر نکلنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔

منگنی کے بعد لڑکے لڑکی کا میل جول

 اَلْغَرَض! حالات خراب سے خراب تر ہوتے جار ہے ہیں ، اس کا ایک بنیادی سبب علمِ دِین سے دُوری بھی ہے جو مزید بے راہ روی کو اُبھارتی ہے۔ اسی علمِ دین سے دُوری اور جہالت کی فراوانی کا نتیجہ ہے کہ منگنی (Engagement)ہوجانے کے بعد لڑکے اور لڑکی کیلئے ایک دوسرے کو دیکھنے ، ایک دوسرے سے بات چیت کرنے ، تحفے تحائف دینے اور میل جول رکھنے کے معاملے میں شَرْعی رُکاوٹیں ختم کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ منگنی کے بعد بھی جب تک نکاح نہیں ہوجاتا ، لڑکا لڑکی ایک دوسرے کیلئے