Book Name:Sharm-o-Haya Kisy Kehty Hen

سے چپکا ہوا لباس پہننا اس طرح کہ اس سے بدن کے اعضا جھلکیں۔ ٭   بڑوں کی تعظیم نہ کرنا۔ ٭   گانے باجے سننا۔ ٭   فلمیں ڈرامےد یکھنا۔ ٭   گناہوں کا ارتکاب کرنا۔ ٭   حیاسوز ناول پڑھنا۔ ٭   نامحرم مردوں اورعورتوں کا شادیوں / فنکشن (Function)کے نام پر ایک دوسرے میں آنا جانا ، بِلاتکلف باتیں کرنا۔ ٭   شرعی پردے کا لحاظ نہ کرنا۔  اس کے علاوہ اوربھی کئی مثالیں ہیں۔ یاد رکھئے :

حدیثِ پاک میں ہے : حیا ایمان کا حصہ ہے۔ ([1]) یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا ، شرم وحیا بھی اس میں اتنی  ہی کمزور ہوگی۔

شرم و حیا اور زمانۂ جاہلیت

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو!اگر ہم تاریخ(History) کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانَۂ جاہلیت یعنی سرکارِ دوعالم ، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول ، عورتوں کے ناچ گانے سے لُطف اُٹھانا ، یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر مَعَاذَاللہ باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔  ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں۔ اَلْغَرَض! جاہلیت


 

 



[1]    مسند ابی یعلی ، مسندعبداللہ بن سلام ،  ۶ / ۲۹۱ ،  حدیث :  ۷۴۶۳