Book Name:Sharm-o-Haya Kisy Kehty Hen

رَضِیَ اللہُ عَنْہ   ہیں  جو تنہائی میں بھی شرم و حیا کا لحاظ رکھتے جبکہ دوسری طرف ہماری ایک تعداد ہے جو تنہائی تو کیا سب کے سامنے بھی شرم و حیا کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے ، کبھی مختصر(Short) اور باریک لباس پہن کر ، کبھی شادیوں  میں مرد و خواتین کی مکس ناچ گانے کی محفلیں سجا کر اورکبھی نگاہوں کو حرام سے بھر کر شرم وحیا کا سرِ عام جنازہ نکالتے دکھائی دیتی ہے۔

آئیے دعا کرتے ہیں کہ یااللہ پاک!  تجھے حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی حیا کا واسطہ ہمیں بھی شرم وحیا  کی نیک عادت عطا فرمادے۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم 

میری بَک بَک کی عادت مِٹا دے

اور آنکھیں حَیا سے جُھکا دے

صدقہ عثماں کا جو باحیا ہے

یاخُدا تجھ سے میری دُعا ہے

(وسائلِ بخشش مُرمّم ، ص ۱۳۹)

آئیے! شرم وحیا پر مشتمل ایک اور واقعہ سنتے ہیں ،

آنکھوں سے پیاری رضائے الٰہی

       اپنے زمانے کے مشہور ولی حضرت یونس بن یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  جوان تھے ، اکثروقت مسجد میں ہی گزارتےتھے ، ایک مرتبہ  مسجد سے گھر آتے ہوئے اچانک