Book Name:Sharm-o-Haya Kisy Kehty Hen

کے معاشرے کا شرم و حیا سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں تھا۔

شرم وحیا سے معمور ماحول

       لیکن جب پیکرِ شرم و حیا ، جنابِ احمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرنے تشریف لائے تو آپ نے اپنی نگاہِ حیا دار سے ایسا ماحول بنایا کہ ہر طرف شرم و حیا کی روشنی پھیلنے لگی ، اب وہی معاشرہ (Society)جسے حیا چُھو کے بھی نہیں گزری تھی ، وہاں شرم و حیا کا سازگار ماحول پیدا ہونے لگا ، وہی معاشرہ جہاں شرم و حیا کرنا عار سمجھا جاتا تھا اب اسی ماحول میں جنابِ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ   جیسے لوگ پیدا ہونے لگے کہ جن کے بارے میں خود حبیبِ خدا ، سرورِ ہر دَوسَرا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تَسْتَحِیْ مِنْہُ الْمَلَا ئِکَۃُ عثمان سےتو آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ ([1])  

یاالٰہی دے ہمیں بھی دولتِ شرم و حیا

حضرتِ عثماں غنیِٔ باحیا کے واسطے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                           صَلَّی اللّٰہُ  عَلٰی مُحَمَّد

بیٹا کھویا ہے حیا نہیں کھوئی!

       اسی حیا پَرْوَر ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت اُمِّ خَلَّادرَضِیَ اللہُ عَنْہَا  کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نکلیں ، لیکن اس وقت


 

 



[1]    مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل عثمان بن عفان ، ص۱۰۰۴ ،  حدیث : ۲۴۰۱