Book Name:Sharm-o-Haya Kisy Kehty Hen

بھی چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بُھولیں ،  چہرے پر نقاب ڈال کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا : آپ  اس وقت بھی باپردہ ہیں؟ تو اس پر بی بی اُمِّ خَلَّادرَضِیَ اللہُ عَنْہَاکہنے لگیں : میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے ، مگر اپنی حیا نہیں کھوئی ، وہ اب بھی باقی ہے۔   ([1])

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب!                                              صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیکرِ شرم و حیا

       پىارے پىارے اسلامى بھائىو!معلوم ہوا کہ سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے ماننے والوں میں شرم و حیا پر مبنی زبردست ماحول  بنایا۔ آج ہم دیکھتےہیں کہ شرم وحیا کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہ لوگ جو شرمیلے ہوں ، فطرتی طور پر حیا ان میں زیادہ ہو اور وہ اس کا اظہار کریں تو انہیں طرح طرح کے طعنے دیئے جاتے ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ میاں! کیا لڑکیوں کی طرح شرما رہا ہے ، تو کوئی ایسے کے بارےمیں  تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ٭یہ تو لڑکیوں سےبھی زیادہ شرمِیلا ہے۔ کسی کے منہ سے اس طرح کے الفاظ نکلتے ہیں کہ اس کی تو لڑکیوں والی عادتیں ہے۔ جبکہ کوئی اس کے بارے میں یوں کہتا دکھائی دیتا ہے کہ ارے بھائی! مرد بن  مرد!عورت مت بن۔ جبکہ کسی کی زبان پر ایسے کلمات ہوتے ہیں کہ یہ تو لڑکی ہے لڑکی۔

       ایسوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شرم و حیا ایک ایسی صفت ہے کہ جتنی زیادہ ہوتی ہے


 

 



[1]   ابو داود ،  کتاب الجهاد ،   باب فضل قتال …الخ ،  ۳ /  ۹ ،  حدیث :  ۲۴۸۸ ملتقطا