Book Name:Rishtay Daron Kay Sath Acha Sulook Kejiye

گناہ میں مُبْتَلا  ہوتے ہیں تو اُنہیں کس قدرذِلَّت و رُسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔افسوس!صد کروڑ افسوس! آج ہمارے مُعاشَرے میں رِشتہ داری گویا کچّے دھاگے کی طرح نازُک و حسّاس ہوچکی ہے، اپنی نفسانی ضِد کی خاطِر رشتے دار آپس میں ہی ایک دوسرے کے خُون کے پیاسے ہوچکے ہیں،معمولی نوک جھونک کے سبب منگنیاں توڑدی جاتی ہیں،مالدار رشتے داروں سے تو سب ملنا پسند کرتے ہیں مگر بے چارے غریب رشتے داروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا،اَولاد اپنے والِدَین سے منہ موڑے بیٹھی ہے،بھائیوں میں مَحَبَّتیں خَتم ہورہی ہیں،سگی بہنوں کی آپس میں ٹَھنی ہوئی ہے،سگے بہن بھائیوں میں نفرتوں کا طُوفان مچا ہواہے،لوگ اپنے دوستوں(Friends) وغیرہ سے تو بڑے  اچھے طریقے سے ملتے ہیں مگر جب اِنہی کا کوئی رشتے دار آجائے تو اُس سے سلام تک کرنا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ ہمیں ہمارے ربِّ کریم نے رِشتے داروں کے ساتھ اچّھا سُلوک کرنے کا حُکْم اِرْشاد فرمایا ہے ،چنانچہ

پارہ21سُوْرَۃُ الرُّوْمکی آیت نمبر38 میں اللہ کریم اِرْشاد فرماتا ہے:

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸) (پ۲۱،الروم:۳۸)                                                                    

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو رشتے دار کو ا س  کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔یہ ان لوگوں  کیلئے بہتر ہےجوالله کی رضا چاہتے ہیں  اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔

پارہ1سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ کی آیت نمبر83 میں اللہ پاک اِرْشاد فرماتا ہے:

وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ (پ۱،البقرۃ:۸۳)                     

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے