Book Name:Ezaa-e-Muslim Hraam Hay

اے عاشقانِ رسول  اسلامى بہنو!اس واقعے کو سُن کر یہ تصوُّربھی نہیں کیاجاسکتا کہ امامِ اعظمرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے  جان بُوجھ کر اُس لڑکے  کا پَیْر کُچلا ہوگا، بے خیالی میں سَر زَد ہونے والے فِعل پر بھی آپ   رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ خوفِ خدا کے سبب بے ہوش ہوگئے اورایک ہم ہیں کہ جان بُوجھ کر نہ جانے روزانہ کتنوں کو اِیذائیں دیتی ہوں گی ، ٭کتنوں کے حقوق مارتی ہوں گی  ، ٭کتنوں کی دل شکنی کرتی ہوں گی  ، ٭کتنوں کا حق مارتی ہوں گی ، ٭کبھی  کسی کو جھاڑتی ہوں گی  تو کبھی کسی کو لَتاڑتی ہوں گی ۔ ٭کبھی کسی کا دل دکھاتی ہوں گی  توکبھی کسی کا حق مارتی  ہوں گی ۔ ٭کبھی کسی کی غیبت میں ملوث ہوتی ہوں گی  تو کبھی کسی پر تہمت لگاتی  ہوں گی ۔ ٭کبھی کسی کی پٹائی کرتی ہوں گی  تو کبھی کسی پر چڑھائی کرتی  ہوں گی  ۔ غور تو کیجئے! آج دوسروں کو تکلیف دیتی ہیں، دوسروں کو ایذا دیتی ہیں اور پروا تک  نہیں کرتیں ، ذرا سوچئے تو سہی!  اگر  قِیامت کے روز ان چیزوں کا حساب دیناپڑگیا  تو کیا بنے گا! یہاں اس دنیا میں کسی کو تکلیف  دینا تو بَہُت ہی آسان لگتا ہےلیکن ناراضیِ ربُّ العزّت کی صورت میں آخِرت میں یہ بَہُت بھاری پڑ جائے گا،ایسا کرنےو الیاں   سخت عذاب کی شکار ہوں گی،

کھجلی کاعذاب

منقول ہے کہ جہنَّم میں ان پر کھجلی مُسَلَّط کردی جائے گی وہ اس قَدَرکُھجائیں گے کہ ان کاگوشت پوست سب جَھڑ جائے گا اور صرف ہڈّیاں رہ جائیں گی، اس وَقْت پُکار پڑے گی: اے فُلاں! کیا تجھے تکلیف ہورہی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ تو کہا جائے گا یہ اُس اِیذاء کا بدلہ  ہے جو تُو مومِنوں کو دیا کرتا تھا۔(اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْہِیب ج۴ ص۲۸۰ حدیث ۵۶۴۹)

       اس لئے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، دوسروں کی راحت کا سامان کرنا چاہیے۔ کروڑوں حنفیوں کے