Book Name:Baron Ka Ihtiram Kejiye

وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)

 ترجَمۂ کنز العرفان:اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سُلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت  نرم بات کہنااور ان کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے ربّ! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ آیتِ مُبارکہ  کی تفسیر میں لکھا ہے:آیتِ(مُبارَکہ ) کا معنیٰ یہ ہے کہ تمہارے رَبّ(کریم)نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ اِنتہائی اچھے طریقے سے نیک سُلُوک کرو کیونکہ  جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر بھی لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سُلُوک کرو۔(تفسیرصراطُ الجنان،۵/۴۴۰) اگر تمہارے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے اَعْضا میں طاقت نہ رہے اور جیسا تم بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھے،ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں تمہارے پاس ناتُواں(یعنی کمزور) رہ جائیں تو اِن سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا، جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خُوبصورت ، نرم بات کہنا اوراچھےادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا۔ (خازن، الاسراء ، تحت الآیۃ: ٢٣، ٣/١٧٠-١٧١،تفسیرصراط الجنان ،۵/۴۴۳ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آیتِ کریمہ اوراس کی تفسیر  سے معلوم ہوا!اللہ پاک  نے والِدَین