Book Name:Achy Amaal Ki Barkten

  دے اوراُن نعمتوں کے حُصُول کی کوشش کرے جو ہمیشہ رہنے والی ہیں۔یقیناً  دُنیا کی مَحَبَّت اور مال و زَر کی خواہش سے بچ کر جنّت پانے کےلیے عمل کرنا اِنْتہائی دُشوار مَرحلہ ہے۔ لیکن اگر ہم آخرت میں ملنے والی آسانیوں ،شادمانیوں اور آسائشوں پرنظر رکھیں گے تو یقیناً ہمارے لیے عمل کرنا آسان ہو گا۔ اس کو یُوں سمجھئےکہ اگر ہمارے سامنے 100روپے اور ایک لاکھ روپے رکھے جائیں اور ان میں سے ایک  کو لینےکا  اِخْتیار دِیا جاۓ  تو یقیناً ہم میں سے ہر شَخْص  ایک لاکھ روپے پر ہی نظر رکھے گا اور ایک لاکھ روپےہی لینا چاہے گا،100 روپے کی طرف کوئی بھی عقلمندنظر اُٹھا کربھی  نہیں دیکھے گا ۔ بالکل اسی طرح دُنْیا وَمَافِیْہا یعنی (دُنیا اور جو کچھ اس میں ہے) اس کی مثال100 روپے کے نوٹ جیسی  ہے۔ جبکہ آخرت  میں ملنے والے فائدے اور جنَّت میں ملنے والی نعمتیں تو ایسی ہیں  جن کا  کوئی مول ہی نہیں، کیونکہ دُنیا کی عارضی نعمتوں کا جنَّت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے کوئی مُقابَلہ  ہی نہیں ۔آئیے حُصُولِ ترغیب کےلیے ”جنَّت کی چند بہاریں“ سُنتے ہیں:چُنانچہ

جنّت کی بہاریں:

اگر جنَّت کی کوئی ناخُن بھَر چیز دُنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں۔(ترمذی،  کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء في صفۃ أھل الجنۃ،۴/۲۴۱، حدیث: ۲۵۴۷) جنّت کی دِیواریں سونے اورچاندی کی اِینٹوں اورمُشک کے گارے سے بنی ہیں۔ (مجمع الزوائد، کتاب أھل الجنۃ، باب في بناء الجنۃ وصفتہا،۱۰/۷۳۲، حدیث: ۱۸۶۴۲) جَنّت میں چار دَریا ہیں ایک پانی کا ،دُوسرا دُودھ کا،تیسرا شہد کا ،چوتھا شَراب کا ،پھر اِن سے نہریں نکل کرہر ایک کے مَکان میں جارہی ہیں ۔نہروں کا ایک کنارہ موتی کا ،دُوسرا یاقُوت کا ہے اور اِن نہروں کی زمین خالِص مُشْک کی ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب صفۃ الجنۃ