Book Name:Muashry Ki Islaah

کبھی غافِل نہیں ہوتے،نادان لوگ اِنہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے لیکن یہ حضرات اُنہیں اِینٹ کا جواب پتّھر سے دینے اور نَفْس کی خاطِر غُصّہ کرنے کے بجائے اُنہیں دعائیں دیتے اور مُعافی سے نواز  کر ثواب کا خزانہ لُوٹتے ۔اس طرح جہاں انہیں معاف کردینے کاثواب پانے کا موقع ملتا وہیں معاشرے میں بھی امن و سکون کی فضا پھلتی پھولتی۔ آئیے اسی طرح کے دو واقعات ہم بھی سنتی ہیں:

(1)ظلم کرنے والے کوبھی دعادی

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب”اِحیاء العلوم“جلد3 ،صفحہ نمبر 216 پر ہے:ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا اِبراہیم بن اَدہم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکسی صَحْراکی طرف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو ایک سِپاہی(Soldier) ملا،اُس نے کہا تم غلام ہو؟فرمایا :ہاں!اُس نے کہا:بستی کس طرف ہے؟آپ نے قَبْرِسْتان کی طرف اِشارہ فرمایا۔سِپاہی  نے کہا:میں بستی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔فرمایا :وہ تو قبرستان ہی ہے۔یہ سُن کر اُسے غُصّہ آگیااوراُس نےکوڑا آپ کے سَر پر دے مارا اور زخمی کرکے آپ کو شہر کی طرف لے گیا۔آپ کے ساتھیوں نےدیکھا تو سِپاہی سے پوچھا:یہ کیا ہوا؟سِپاہی نے ماجرا بیان کردیا۔اُنہوں نے سپاہی کو بتایا یہ تو(زمانے کے وَلی)حضرت سَیِّدُنا اِبراہیم بن اَدہم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  ہیں ۔یہ سُن کروہ  گھوڑے سے اُترا اور آپ کے ہاتھ چُومتے ہوئے مَعْذِرَت کرنے لگا۔آپ سے پوچھاگیا:آپ نے یہ کیوں کہا کہ میں غلام ہوں۔فرمایا :اُس(سپاہی )نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ تم کس کے غلام ہو؟بلکہ صِرْف یہ پوچھا کہ تم غلام ہو؟تو میں نے کہا: ہاں!کیونکہ میں ربِّ کریم کا غلام(یعنی بندہ)ہوں۔جب اُس نے میرے سَر پر مارا تو میں نے اللہ پاک سے اُس کےلئے جنّت کا سُوال کیا۔عَرْض کی گئی:اُس نے آپ پر ظُلْم کیا تو آپ نے اُس کے لئے دعا کیوں مانگی؟فرمایا:مجھے یہ معلوم تھا کہ تکلیف