Book Name:Barkaat-e-Zakaat

    اگرچہ ظَاہِرِی طَور پر مال کم ہوتا، لیکن حَقِیقَت میں بڑھ رہا ہوتا ہے، جیسے درخت سے خراب ہونے  والی شاخوں کو اُتارنے میں بَظَاہِر درخت میں کمی نظر آرہی ہے ،لیکن یہ اُتارنا اُس کی نَشْوونُما کا سبب ہے۔ مَشْہور مُفَسِّرقُرآن حکیْمُ الاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں،زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ہر سال بڑھتی ہی رہتی ہے۔ یہ تَجْرِبَہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے ،وہ بَظَاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے، لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چُوہے، سُرسُری وغیرہ  کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے، اُس میں سے خرچ کرتے رہو ، اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ بڑھتا ہی رہے گا،کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا۔([1])  

(12) مال کے شر سے حفاظت

بارہواں (12) فائدہ یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا مال کے شَر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا فرمانِ عظمت نشان ہے: جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی، بے شک اُس سے مال کا شَر دُور ہوگیا۔([2])   

(13)حفاظتِ مال کا سبب

تیرہواں (13) فائدہ یہ ہے کہ زکوٰۃ دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَہے :”اپنے مالوں کو زکوٰۃ دے کر مضبوط قَلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔“ (مراسیل ابی داؤد مع سنن ابی داؤد ،باب فی الزکاۃ،ص۸)


 

 



[1] مرآۃ المناجیح، ۳ / ۹۳

[2] المعجم الاوسط،باب الالف من اسمہ احمد،الحدیث،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱