Book Name:Parosi Kay Huquq

سبب بنتا،  مگر قُربان جائیے کہ وقت کے اتنے بڑے امام ہوکر بھی آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنے پڑوسی کی اس تکلیف دہ حرکت پر اسے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے یا کسی بھی طرح کی بدسُلُوکی کرنے کے بجائے صبرکا مُظاہرہ کیا اور مسلسل دَرگُزر فرماتے رہے حتّٰی کہ جب اسی پڑوسی کو کسی جُرم میں گرفتار کیا گیا تو آپ کے پاس یہ موقع تھا کہ اس کے خلاف مُقدّمہ بنوادیتے یا خلیفہ وقت سے اس کی شکایت کرکے اسے سزا دلواتے مگر آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ حقِ پڑوس کی رعایت کرتے ہوئے خَلیفۂ  وقت کے پاس جاکر اس  کی جائز سفارش کرکے اسے قَید سے آزاد کروادیا۔آپ کےاس حُسنِ اخلاق کا اس کےدل پرایسا  اثر ہوا کہ اس نے اپنے پچھلے تما م گُناہوں سے سچی توبہ کی اور ہمیشہ کیلئے گُناہوں سے باز آگیا۔

میٹھی میٹھی اسلامی  بہنو!معلوم ہواکہ  پڑوسی کی جانب سےاگر کوئی تکلیف پہنچ جائے تو ہمیں جذبات میں آکر اس کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے،اس کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے  یا اسے کسی طرح کا نُقصان پہنچانے کے بجائے صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے،کیونکہ پڑوسی کی تکلیفوں پر صبر کرنے کی برکت سے انسان اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا محبوب بن جاتا ہے ۔چنانچہ

مَحبوبِ رَبُّ العزّت،مُحسنِ انسانیت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:جن لوگوں سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  محبت فرماتا ہے ان میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا بُرا پڑوسی اسے ايذا دےتو وہ اس کی ايذا رسانی پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔

 (معجم کبیر،۲/۱۵۲ ،حدیث:۱۶۳۷)

حقِّ پڑوس کیا ہے؟

حُجَّۃُالْاِسْلَام حضرت سَیِّدُنا امام محمدغزالیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں:یادرکھئے!حَقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیاجائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو