Book Name:Parosi Kay Huquq

ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔  (تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۲۷۵)

میٹھی میٹھی اسلامی  بہنو!سُنا آپ نے کہ اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دُور کے ہمسایوں کے ساتھ کس طرح کا سُلوک کرنا چاہئے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ قرآنِ کریم کے علاوہ احادیثِ مُبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیّت،ان کے ساتھ حُسنِ سُلُوک بجالانے اوران کے حُقوق کی بجاآوری کا ذِہْندیا گیا ہے۔آئیے!اس ضمن میں  ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سُنتے ہیں اور اس  سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں کو اپنے دل کے مدنی گُلدستے میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں ،چنانچہ

نبیِ کریم ،رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟(پھر خود ہی ارشاد فرمایا:) کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب مُحتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مُصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بُلند نہ کروکہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خریدو تو اس