Book Name:Parosi Kay Huquq

برداشت(Tolerate)کرنا بھی حقِ پڑو س میں شامل ہے۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کےبدلے اسے تکلیف نہیں دیتا،حالانکہ اس طرح  پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا،لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اِکتفا نہ کر ے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نَرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے ۔(احیاء العلوم، کتاب  اداب الالفۃ ۔۔۔الخ ،۲/۲۶۷)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!ہمیں بھی چاہیے اپنے پڑوسی  کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آئیں اگر وہ کسی آزمائش میں مبُتلا ہومثلاً اس کا بچہ گم ہوجائے،اس کے یہاں فوتگی یاڈکیتی ہوجائے، مکان یا چھت گرجائے،آگ لگ جائے یا وہ لائٹ،پانی،بیماری،روزگار،گھریلوں ناچاکی یا جھوٹے مُقدّمے جیسےمسائل سے دوچار ہو تو ہمیں فوراً اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے،کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سُلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا ربِّ کریم عَزَّ  وَجَلَّ ہمیں ارشاد فرمارہا ہے۔ چنانچہ پارہ5سورۃُ النسآء کی آیت نمبر36 میں ارشادِ باری تَعَالٰی  ہے:

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ  (۳۶)

ترجَمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔

اس آیتِ مقدسہ کے تحت  تفسیراتِ احمدیہ میں ہے کہ قریب کے