Book Name:Masjid kay Aadab (Haftawar Bayan)

زندگی میں دُور سے سُنتے تھے تو بعدِوفات بھی سُنیں گے۔ (علم القرآن ،ص۲۰۸)

(3) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ولیِ اَقْرَب یعنی میّت کا سب سےقریبی رشتہ دار، اگر نمازِ جنازہ نہ پڑھ سكے،تو اُسے قبر پر جنازہ پڑھنے کا اِخْتیار ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ 838 پر ہے کہ :ولی کے سوا کسی ایسے نے نمازِ(جنازہ)پڑھائی جو ولی پرمُقدم (افضل)نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی، تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز کا اِعادہ کر سکتا ہے اور اگر مُردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر (بھی)نمازِ(جنازہ) پڑھ سکتا ہےاور ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے زمانَۂ اقدس میں تمام  مسلمانوں کے ولیِ اقرب ہیں :چنانچہ اعلیٰ حضرت،اِمام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : زمانۂ اقدسِ حُضُور سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں تمام مسلمین کے ولیِ اَحَق واَقْدَم(سب سے بڑے مالک)خُودحُضُورپُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں ۔( خود )رَسُوْلُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِرْشادفرماتے ہیں : اَنَااَولٰی بِالْمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِم یعنی  میں مُسَلمانوں کا ان کی جانوں سےزیادہ مالک ہوں ۔(مسلم،کتاب الفرائض ،باب ترک مالًا فلو رثتہ،۸۷۴/۱۶۱۹)توجونمازِجنازہ حُضُورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کواِطلاع دئیے بغیر اور لوگ پڑھ لیں ، پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس پر اعادہ فرمائیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے نمازِ اَوّل(پہلی نمازِجنازہ)ولی کے علاوہ کسی غیر نے پڑھائی۔ولیِ اَحَق اختیارِ اِعادہ (یعنی دوبارہ پڑھنے کا اختیار)رکھتاہے۔(فتاویٰ رضویہ، ۹/۲۹۱،ملخصاً)اسی لیےسرکار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےاُمِّ محجنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی قبرپر تشریف لے جاکرنمازِ جنازہ اَدا فرمائی اورجب ان سے افضل عمل کے بارے میں پُوچھا تو اُنہوں نے  مسجد کی صفائی کوافضل عمل بتایا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی مسجدوں کو پاک وصاف رکھنا چاہیے  کہ مسجد کی صَفائی کرنے والا اللہعَزَّ  وَجَلَّ کامحبوب ہوتاہے، حدیثِ پاک میں ہے :’’مَنْ اَلِفَ الْمَسجد اَ لِفَهُ اللهُ  جو مسجد سے مَحَبَّت کرتا ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے اپنا محبوب بنا لیتاہے ۔‘‘(مجمع الزوائد ،کتا ب الصلوۃ ، باب لزوم المساجد ، رقم  ۲۰۳۱