Book Name:Musalman ki Parda Poshi kay Fazail

تُو نے دُنیا میں بھی عیبوں کو چُھپایا یاخدا     حَشْر میں بھی لاج رکھ لینا کہ تُو سَتّار ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بَیان  کردہ حدیثِ مبارَکہ اور اُس کی شرح سے معلوم ہوا کہ  ہمیں ایسوں کی صحبت سے فیضیاب ہونا چاہئے کہ جن کی بَرَکت سے ہمیں اپنی ذات میں موجود عیبوں کی اِصلاح کا موقع نصیب ہو۔افسوس کہ اب ایسی مدنی سوچ کہاں! اب تو وہ نازک دَور آگیا ہے کہ ہم اپنی جُھوٹی تعریفیں کرنے والوں اور ہاں میں ہاں مِلانے والوں کو ہی اپنا محبوب و محسن سمجھتے ہیں اور جو ہماری اصلاح کیلئے ہمیں آئینہ دِکھا کر ہماری اَصلیَّت بتائے، اُسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں ۔

کمزوریِ اِیمان کی علامت

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ1285 صفْحات پر مشتمل کتاب” اِحیاءُ العُلوم“ جلد3صفحہ 196پر حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:دِین دار لوگوں کی یہ خواہش ہُوا کرتی تھی کہ وہ دُوسروں کے بتانے سے اپنے عُیُوب پر مُطَّلَع ہوں، لیکن اب ایسا دَور آگیا ہے کہ ہمیں نصیحت کرنے اور ہمارے عیبوں پر مُطَّلَع کرنے والا ہمیں سب سے زیادہ ناپسندیدہ معلوم ہوتا ہے اور یہ بات اِیمان کی کمزوری کی علامت ہے۔بُرے اَخْلاق، ڈَسنے والےسانپ اوربِچھو ہیں۔اگر کوئی ہمیں یہ بتائے کہ تمہارے کپڑوں کے نیچے بِچھو ہے، تو ہم خُوش ہوکراُس کے اِحسان ماننے والے ہوجاتے ہیں اور بِچھو کو اپنے سے دُور کرکے مار دیتے ہیں، حالانکہ بِچھو کا زہر صِرْف بدن تک مَحدود ہے اور اُس کی تکلیف ایک یا دو دن تک رہتی ہے،جبکہ بُرے اَخْلاق کے زہر کا اَثْر ہمارے ضمیر پر ہوتا ہے اور اِس بات کا خَوف ہوتا ہے کہ مَرنے کے بعد ہمیشہ یا مُدَّتوں اِس کا اَثْر باقی رہے۔اب  حالت یہ ہے کہ کوئی ہمیں ہمارے عُیُوب پر مُطَّلَع کرے تو ہمیں یہ سُن کر خُوشی نہیں ہوتی