Book Name:Musalman ki Parda Poshi kay Fazail

کر میرے والدِ محترم نے جواب دِیا : اے باپ کی جان! اگرتُو بھی سو جاتا تو اِس سے بہتر تھا کہ لوگوں کی عیب جوئی کرتا۔([1])

آج بنتا ہوں مُعزز جو کُھلے حشر میں عیب

آہ! رُسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یا ربّ

(وسائلِ بخشش ص:85)

امانت میں خِیانت کرنے والا

ایک عقلمندکے سامنے کسی جان پہچان والےنے ایک مُسَلمان  کی غیبت کی، اُس عقلمندنے کہا:اے شخص !پہلے میرا دل فارِغ تھا ،اب تُو نے غیبت کے ذَرِیعے میرا دل اُس مُسلمان کے عیبوں کے مُتَعَلّق  وَسْوَسوں اور نَفْرتوں میں مشغول کر دِیا اور اُس مُسَلمان  کومیری نظر میں کم تَر بنانے کی کوشش کی اور اِس طرح سے تُو بھی میرے نزدیک گنداہوا  ،کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ تُو اَمانت دار ہے اوربات کو خُوب چُھپاتا ہے،اب جب کہ تُو نے اُس کا عیب کھولا تو معلوم ہو گیا کہ تُو اَمانت دار نہیں ہے ،تیرے دل میں کوئی بات رُکتی نہیں۔ ([2])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ یہ حضرات مسلمانوں کی عزّت و نامُوس کا کس حَسین انداز میں دِفاع فرماتے کہ اگر اُن کا کوئی اپنا بھی  کسی مُسَلمان  کی غِیبت یا بُرائی کرتا تو رشتے داری یا  دوستی کا لِحاظ کرتے ہوئےاُس کی بات کو خاموشی سے سُن لینے یا ہاں میں ہاں مِلانے کی نادانی کرنے کے بجائے اِصلاح کی نِیَّت سے اَحسن انداز میں اُسےنیکی کی دعوت دیتے اور اِس بات کا اِحساس دِلاتے کہ


 



[1] حکایاتِ گلستانِ سعدی،حکایت نمبر ۴۸،ص  ۷۵ ملخصاً

[2] تَنبِیہُ الغافِلین،باب النمیمۃ، ص۹۲ مفہوماً