Book Name:Aala Hazrat ka Ishq e rasool

حضور نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اُن کی سُنّت سے سچی مَحَبَّت کا مُنہ بولتا ثُبُوت تھا، کیونکہ جو تاجدارِ رسالتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنّت سے مَحَبَّت کرتا ہے ،در حقیقت وہ آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی سے مَحَبَّت کرتا ہے جیساکہ   مکّی مَدَنی مُصْطَفٰے  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ حقیقت بُنیاد ہے: مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِیْ فَـقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی، اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی، وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا ۔([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                         صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اِتباعِ سُنت کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا قُرب نصیب ہوتا ہے،اِتباعِ سُنت کی برکت سے دونوں جہاں میں سرفرازی و سُرخروئی نصیب ہو گی،اِتباعِ سُنت کی برکت سے عشقِ رسول میں اِضافہ ہوگا۔اتباعِ سنت میں ڈھیروں حکمتیں ،اتباعِ سنت سے درجات بلند ہوتے ہیں ۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ،مکی مدنی سُطان،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حقیقی مَحَبَّت کی وجہ سے حدیثِ پاک کابے اِنتہا اَدَب فرماتے تھے۔ ہمیشہ دَرسِ حدیث اَدَب کے ساتھ دو زانوں بیٹھ کر دِیا کرتے۔ احادیثِ کریمہ بغیر وُضو نہ چُھوتے اورنہ پڑھایا کرتے۔کُتُبِ احادیث پرکوئی دوسری کتا ب نہ رکھتے۔ حدیث کی شَرْح و وضاحت کے دوران اگر کوئی شَخْص بات کاٹنے کی کوشش کرتا ،تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسخت ناراض ہو جاتے،یہاں تک کہ چہرۂ مُبارک غُصّے کی وجہ سے سُرْخ ہو جاتا۔حدیثِ پاک پڑھاتے وقت پاؤں،زانوپر رکھ کر بیٹھنے کو ناپسند فرماتے۔([2])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث کے اَدَب و اِحْتِرام کا خاص خیال رکھا کریں نیز قرآن و حدیث اور سُنّتوں بھرے بیانات سُنتے ہوئے بھی بھر پُور توجّہ اور تمام تَر آداب کا خیال رکھتے ہوئے بے اَدَبی اور غفلت و

 



[1] مشکاۃ الصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،الفصل الثانی،۱/۵۵،حدیث:۱۷۵

[2]فیضانِ اعلیٰ حضرت، ص ۲۷۶ ملخصاً