Book Name:Faizan e Aala Hazrat

چھوٹی چھوٹی شرعی غلطیوں  پر آپ بچپن ہی میں بلا تکلّف بول دیا کرتے تھے، ایسامعلوم ہوتا تھا کہ غلطی کی تصحیح قُدر ت ہی نے ان کی عادتِ ثانیہ بنا دی تھی، چونکہ ان سے آگے چل کر رَبُّ العزّت عَزَّ  وَجَلَّ کو یہی کام لینا تھااسی لیے بچپن ہی سے غیر شرعی باتوں  پر دوسروں کی اصلاح کرنا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا معمول تھا۔ ایک دن آپ کے اُستادِ گرامی بچوں کوتعلیم دے رہے تھے کہ ایک لڑکے نے سلام کیا، اُستادصاحب نے جواب میں فرمایا ’’ جیتے رہو‘‘ اس پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایایہ تو جواب نہ ہوا ’’وَعَلَیْکُمُ السَّلَام ‘‘ کہنا چاہیےتھا،آپ کے اس جذبۂِ اظہار پر آپ کے اُستاد   بے حدمَسرور ہوئے اور آ پ کو بڑی نیک دُعاؤں سے نوازا۔(مجدد اسلام ،ص 37ازفیضانِ اعلیٰ حضرت،ص۸۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!دیکھاآپ نےکہ  سَیِّدی اعلیٰ حضرت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بچپن میں ہی سلام کا جواب دینے پر کیسی اِصْلاح فرمائی۔ کہ سلا م کاجواب ”جیتے رہو“نہیں ہوسکتا بلکہ” وَعَلَیْکُمُ السَّلَام“ہی ہوگا۔ آج کل ہمارے مُعاشرے سے یہ سُنَّت ختم ہوتی نظرآرہی ہے۔ بدقسمتی سے ہم مُلاقات کے وقت اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ سے اِبتدا کرنے کے بجائے ''آداب عرض'' کیا حال ہے ؟'' مِزاج شریف '' صُبح بخیر''،'' شام بخیر ''وغیرہ وغیرہ عجیب وغریب کلمات سے گُفْتگُوکا آغاز کرتے ہیں اسی طرح رُخصت ہوتے وقت بھی ''خُدا حافظ''''گڈبائی'' ''ٹاٹا '' وغیرہ کہہ دیتے ہیں جوکہ خِلافِ سُنَّت ہے ،ہاں رُخصت ہوتے ہوئے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بعد اگر خُدا حافظ کہہ دیں تو حرج نہیں۔قرآنِ پاک میں ہمیں