Book Name:Faizan e Aala Hazrat

اچھے اَلفاظ کے ساتھ  سلام کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔

وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ- (پ ٥، النسا:٨٦)

ترجَمۂ کنز الایمان:''اور جب تمہیں کوئی کسی لَفْظ سے سَلام کرے تو تم اس سے بہترلَفْظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو''۔

اگر ہمیں کوئی سلام کرے تو  سَر ہِلا کر یا ہاتھ کے اِشارے سے سلام کا جواب دینے کے بجائے  وَعَلَیْکُمُ السَّلام کہناچاہیے ۔ صَدْرُ الشَّریعہ ،بَدْرُالطَّریقہ مُفْتی اَمْجد علی اَعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ارشاد فرماتے ہیں :اُنگلی یا ہتھیلی سے سَلام کرنا مَمنوع ہے۔ حدیث میں فرمایاکہ اُنگلیوں سے سَلام کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے اور ہتھیلی سے اِشارہ کرنا نَصاریٰ کا۔ بعض لوگ سَلام کے جواب میں ہاتھ یا سر سے اِشارہ کردیتے ہیں، بلکہ بعض صرف آنکھوں کے اشارہ سے جواب دیتے ہیں یوں جواب نہیں ہوا، ان کو مُنہ سے جواب دینا واجِب ہے۔ (بہارِ شریعت،حصہ۱۶ص۴۶۴)اورسلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے، بلاعُذر تاخیر کی تو گُنہگار ہوا اور یہ گُناہ جواب دینے سے دَفْع نہ ہوگا، بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔(بہارِ شریعت،حصہ۱۶،ص۴۶۰)

اللہ عَزَّ  وَجَلَّہمیں سَلام کی سُنَّت کوزِیادہ سے زِیادہ عام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! سَیِّدی اعلیٰ حضرتر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو چھ بر س کی عُمر میں جب یہ معلوم ہوگیا کہ  بغداد شریف  کس  سِمْت میں واقع ہے تو پھرآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے  اُ س وقت سے دمِ آخرتک بغداد شریف کی جانب  کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔(فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص۸۸ بتغیر) اس سے معلوم ہواکہ