تفسیر قراٰنِ کریم

نعمتیں اور شکر(قسط : 01)

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ مارچ2021

 اللہ تعالیٰ  کی اپنی مخلوق پر نعمتوں کی بارش ہرآن تَواتُر سے بَرس رہی ہے۔ ہر ذرہ ٔکائنات اُس مُنعِم حقیقی کی رحمتوں کے مُقدَّس بوجھ تلے دَبا ہوا ہے۔ کوئی شے ایسی نہیں جسے اُس ربِّ کریم کی شانِ رحمت سے حصہ نہ ملا ہو۔ مخلوق کا عدم سے وجود میں آنا ہی اُس کے فضل و کرم سے ہے۔ نعمتوں کی جملہ مخلوقات پر فراوانی کے ساتھ  اللہ تعالیٰ  کا یہ بے پایاں کرم ہے کہ اُس نے ہم مسلمانوں کو دوسروں سے زیادہ رحمت کا حصہ عطا فرمایا۔ اپنی ذات کے اعتبار سے ہم غور کریں تو سمجھ آئے گا کہ  اللہ تعالیٰ  کی نعمتیں کس کس طور پر ہمیں حاصل ہیں۔

سب سے پہلی نعمت ، نعمتِ وجود ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب ہم موجود نہ تھے اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر شے تھے پھر اُس نے ہمیں وجود بخشا اور سماعت و بصارت عطا کی جیسا کہ  اللہ تعالیٰ  نے فرمایا :

( هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا(۱) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۲) اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(۳))

ترجمہ : بیشک آدمی پر ایک وقت وہ گزرا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں تو ہم نے اسے سننے والا ، دیکھنے والا بنا دیا۔ بیشک ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ، (اب) یا شکرگزار ہے اور یا ناشکری کرنے والا ہے۔ (پ29 ، الدھر : 1تا3)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسری نعمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں کوئی جانور ، مویشی نہیں بنایا بلکہ انسان بنایا اور بہترین صورت عطا فرمائی ، چنانچہ خداوندِ کریم نے فرمایا :

(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴) )

ترجمہ : بیشک یقیناً ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ (پ30 ، التین : 4)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تیسری نعمت جو نہایت عظیم ہے ، نعمتِ ایمان ہے کہ اللہ کریم نے ہمیں ایمان کی دولت سے مُشرَّف کیا ، ارشادِ خداوندی ہے :

(وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-)

ترجمہ : لیکن اللہ نے تمہیں ایمان محبوب بنا دیا ہے اور اُسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا اور کفر اور حکم عُدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی۔ (پ26 ، الحجرات : 7)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

چوتھی عظیم و جلیل نعمت ، خدا کی آخری کتاب قرآنِ مجید ہے ، چنانچہ فرمایا :

(یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷))

ترجمہ : اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی۔ (پ11 ، یونس : 57) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پانچویں عظیم نعمت ، جانِ نعمت ، اصلِ نعمت ، سببِ ہر رحمت و نعمت ، حضور پرنور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ذاتِ گرامی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

(هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا)

ترجمہ : وہی (اللہ) ہے جس نے اَن پڑھوں میں اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا۔ (پ28 ، الجمعہ : 2) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور یہ ایسی نعمت ہے کہ باقی دنیا والی ساری نعمتیں اِس پر قربان۔

؏ وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے

؏ اِک تِرے رخ کی روشنی ، چین ہے دو جہان کی

اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

؏ کروں تیرے نام پہ جاں فدا ، نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا ، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

؏  شکر ایک کرم کا بھی ، ادا ہو نہیں سکتا

دل اُن پہ فدا ، جانِ حسنؔ اُن پہ فدا ہو

چھٹی نعمت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارےحبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صدقے ہمیں بہترین امت بنایا ، چنانچہ فرمایا :

(كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ   تَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  تَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِ )

ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ظاہر کی گئی ، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ (پ4 ، اٰل عمرٰن : 110)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ساتویں عظیم نعمت ، عقل ہے کہ خدا نے ہمیں پاگل نہیں بنایا اور نہ ہی جانوروں کی طرح نہایت معمولی عقل دی ہے ، بلکہ وہ عالی شان عقل عطا فرمائی ہے جو کاشِفِ حقائقِ کائنات (یعنی کائنات کی غیر معلوم حقیقتیں کھولنے والی) ، واقِفِ مَعارِفِ الٰہیہ (یعنی خدائی اسرار جاننے والی) اور غوَّاصِ بحرِ دقائق (یعنی باریک سے باریک باتوں کی گہرائیوں میں جانے والی) اور دنیا و آخرت کے منافع سمجھنے والی ہے ، چنانچہ فرمایا :

( اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَۙ(۱۲))

ترجمہ : بیشک اِس میں عقل مندوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ (پ14 ، النحل : 12) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور عقل استعمال کرنے کی طرف دعوتِ شوق دیتے ہوئے فرمایا :

(سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ)

ترجمہ : ابھی ہم انہیں آسمان و زمین کی وسعتوں میں اور خود ان کی ذاتوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ (پ25 ، حٰمٓ السجدہ : 53) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اور فرمایا :

(وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ(۱۹۷))

ترجمہ : اور اے عقل والو! مجھ سے ڈرتے رہو۔ (پ2 ، البقرۃ : 197)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور فرمایا :

(اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِۙ(۱۹))

ترجمہ : وہ آدمی جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے تو کیا وہ اُس جیسا ہے جو اندھا ہے؟ صرف عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔ (پ13 ، الرعد : 19)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آٹھویں نعمت اور بہت حیرت انگیز نعمت کہ  اللہ تعالیٰ  نے مقصودِ کائنات ہمیں قرار دیا ہے اور باقی کائنات یعنی آسمان و زمین ، سورج ، چاند ، ستارے ، درخت ، پہاڑ ، ندی نالے ، دریا ، سمندر ، غار ، وادیاں ، گھاٹیاں ، دن رات وغیرہا سب ہمارے کام میں لگارکھے ہیں ، چنانچہ  اللہ تعالیٰ  نے فرمایا :

(وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُؕ-)

ترجمہ : اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب (اللہ نے) اپنی طرف سے (اے لوگو!) تمہارے کام میں لگادیا۔ (پ25 ، الجاثیۃ : 13)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نعمتوں کی اِس مُوسلا دھار بارش سے فیض یاب ہوتے ہوئے ہماری حالت و کیفیت تو یہ ہونی چاہئے کہ دل احساسِ تشکر سے لبریزاور رحمٰن و رحیم مولا کی بارگاہِ بے کس پناہ میں جھکا رہے ، جبینِ نیاز اُس کی بارگاہِ ناز میں سجدہ ریز رہے ، فانی وجود اُس واجبُ الوجود کی ذاتِ جمال و جلال کی محبت میں فنا ہو جائےاور ظاہر و باطن اُس کے شکر میں مستغرق رہیں ، لیکن افسوس کہ ہماری حالت ایسی نہیں بلکہ خدائے رؤف و رحیم کے عظیم جُود و کرم ، رحمت و نعمت اور فضل و برکت کے باوجود ہمارے اندر شکر کا مادہ کم ہے۔ اگر صبح اٹھنے سے رات سونے تک کے معمولات پر غور کرلیں کہ ہم کتنا شکر ادا کرتے ہیں تو نفس کی طرف سے ہمیں جواب کے الفاظ کچھ اِس انداز میں موصول ہوں گے۔

؏ روزِ حساب جب مرا ، پیش ہو دفترِ عمل

آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر

ربِّ کریم نے فرمایا :

(وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ(۱۳))

ترجمہ : اور میرے بندوں میں شکر والے کم ہیں۔ (پ22 ، سبا : 13) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور شیطان نے بھی مردود قرار دئیے جانےکے دن بارگاہِ الٰہی میں یہی کہا تھا :

(وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ(۱۷))

ترجمہ : اور تو اُن میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ (پ8 ، الاعراف : 17)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

؏بندے پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط

اللہ کر علاج مری حرص و آز کا

؏مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے

دے لُطف میری جان کو سوز و گداز کا

؏تُو بے حساب بخش کہ ہیں بے شُمار جُرم

دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا

عملی حالت تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی لیکن حقیقی حالت کیسی ہونی چاہئے ، اُس کی تفصیل اِن شآءَ اللہ اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دارالافتاء اہلِ سنّت ، فیضانِ مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code