فریاد

انتقام کی آگ

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ مارچ2021

پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک میڈیا آئے دن  انتقام ، بدلے اور  دشمنی کے نام پر ہونے والی وارداتوں اور قتل و غارت کی خبریں سرفہرست ہوتی ہیں ، بدلے اور انتقام کے نام پر کتنے ہی خاندانوں کے کئی کئی افراد قتل ہوچکے ہیں ، ایک خبر میں بتایا گیا کہ  مظفرپور کے دو خاندانوں میں راستے سے گزرنے کی  معمولی بات پر   تنازع ہوا جس کے بعد صرف ڈیڑھ سال میں دونوں گھرانوں کے6 جبکہ 2 راہگیر قتل ہوچکے ہیں ، اوکاڑہ کے ایک علاقہ میں زمین کے تنازعہ پر ایک ہی خاندان کے چار افراد قتل کو کر دیا گیا ، ضلع خانیوال  میں ایک ہی محلے میں رہنے والے  دو خاندانوں  کے دشمنی و انتقام کے سبب  12 افراد جان دے چکے جن میں ایک ہی گھر کے  تین سگے بھائی ، دو بہنیں ، دو بہنوئی اور والدہ شامل ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں انتقام (یعنی بدلے) کی آگ بہت پھیل چکی ہے ، ایک ہی ملک ، شہر ، محلے بلکہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے انتقام لیتے اور اپنی حد سے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جو بَروقت انتقام نہیں لے پاتے تو وہ بدلے کی آگ میں خود کو جلاتے اور وقت اور موقع کا انتظار کرتے رہتے ہیں ، پھر جیسے ہی موقع میسر آتا ہے تو فوراً انتقام لے لیتے ہیں۔ میاں بیوی کے آپس کے جھگڑوں ، ایک ہی خاندان کی آپسی لڑائیوں ، مختلف قبیلوں کی باہمی رنجشوں اور ناراضگیوں ، نیز جیلوں میں بند قیدیوں کی بڑی تعداد کے پیچھے اگر غور کیا جائے تو یہی انتقام کی آگ ہی نظر آئے گی۔ اس نے مجھے ایک گالی دی تو بدلے میں مجھے جتنی گالیاں یاد تھیں سب اسے دیدیں ، اس نے مجھے صرف ایک تھپڑ مارا میں نے تو اس کا منہ توڑ اور سَر پھوڑ دیا تھا ، فلاں نے کالج کے زمانے میں سب کے سامنے میری بےعزتی کی تھی تو پھر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسے ایسا گم کر دیا کہ اب تک اس کے گھر والے اسے ڈھونڈ ہی رہے ہیں ، اس نے میرے رشتے کو ٹھکرا دیا تو میں نے بھی موقع پاکر اس کے چہرے پر تیزاب ڈال دیا ، اب دیکھتا ہوں کیسے ہوتی ہے اس کی شادی اور کون بناتا ہے اسے اپنے گھر کی بہو؟ انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی تھی تو ہم نے بھی ان کے ساتھ ایسا کیا جسے اب تک وہ لوگ بھگت رہے ہیں ، انہوں نے ہمیں اپنے ہاں دعوت میں نہیں بلایا تھا اس لئے بدلے میں ہم نے بھی ان کو نہیں بلایا اور آئندہ جس دعوت میں وہ لوگ ہوں گے ہم وہاں بھی نہیں جائیں گے ، بیوی میرے ساتھ بدتمیزی کرتی اور بات نہیں مانتی تھی تو میں نے بھی اسے پکّا پکّا اس کے گھر ہی بھیج دیا یعنی طلاق دے دی ، اس نے تو منیجر صاحب سے میری صرف ایک شکایت کی تھی جس سے مجھے وقتی طور پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر میں نے تو ایسی گیم کھیلی ہے کہ اب وہ زندگی بھر مجھے یاد رکھے گا ، نوکری سے بھی جائے گا اور کمپنی میں دوبارہ اپنا منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہےگا ، راستے میں ایک بائک والے نے میری گاڑی کو ٹکر مار دی تھی تو میں نے گاڑی سے اُتر کر بائک والے کی ایسی دُھلائی کی جسے اس کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی ، فلاں قبیلے والوں نے تو ہمارا صرف ایک آدمی قتل کیا تھا ہم ان کے تین افراد کو قتل کرچکے ہیں مگر اب تک ہمارے بدلے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ، لڑائی کے دوران میرے ہاتھ پر صرف خراش آئی تھی تو میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس آدمی کا ہاتھ ہی توڑ دیا تھا۔

اے عاشقانِ رسول! معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے اس طرح کے بہت سارے واقعات کے پیچھے عام طور پر یہی انتقام اور بدلے کی آگ کار فرما ہوتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مزاج ہاف بوائل پانی کی طرح ہوچکا ہے کہ ذراسی کسی نے ہمارے مزاج کے خلاف جان بوجھ کر یا بھول کر کوئی بات کہہ دی یا کوئی کام کرلیا تو فوراً ہمارے مزاج کا ہاف بوائل پانی کھولنے لگتا ہے اور ہم انتقامی کاروائی کرنے پر اُتر آتے اور سامنے والے نے جو غلطی کی ہے اس سے بڑی غلطی کرکے اپنی دنیا و آخرت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ، حالانکہ جس ربِّ کریم نے ہمیں پیدا کیا ہے جو ہم سب کا مالک ہے وہ انتقام نہ لینے ، معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کو پسند فرماتا ہے ، جس رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے ان کے بارے میں تو مؤمنوں کی امی جان بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میرے سرتاج  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کبھی بھی اپنے لئے کسی سے انتقام نہ لیا ، مگر جب کوئی خدا کی حرمت کے خلاف کرتا تو آپ اللہ پاک کے لئے انتقام لیتے۔ (بخاری ، 2 / 489 ، حدیث : 3560) بلکہ آپ کی شانِ کریمی تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر جادو کرنے اور زہر دینے والوں تک کو معاف فرما دیا ، فتحِ مکہ کے موقع پر تو آپ کا کرمِ کریمانہ مجرموں پر ایسا بَرسا کہ چشمِ فلک آج تک حیرت زدہ ہے۔

میں جس پیر کا مرید ہوں ان کا اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اس ادائے درگزر پر عمل بھی لائقِ عمل ہے ، چنانچہ میرے شیخِ طریقت ، امیرِاہلِ سنّت علّامہ الیاس قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے مَحلے میں رہنے والے ایک اسلامی بھائی جو آپ کو بچپن سے جانتے ہیں ، ان کا حلفیہ بیان ہے کہ آپ بچپن میں بھی نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے ، اگر آپ کو کوئی ڈانٹتا یا مارتا تو انتقامی کاروائی کرنے کے بجائے خاموشی اختیار فرماتے اور صبر کرتے ، ہم نے انہیں بچپن میں بھی کبھی کسی کو بُرا بھلا کہتے یا کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (تعارفِ امیر اہل سنت ، ص47) آپ  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے جو وصیت نامہ لکھا ہے اس میں بھی آپ فرماتےہیں : مجھے جو کوئی گالی دے ، بُرا بھلا کہے ، زخمی کردے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اُسے اللہ پاک کے لئے پیشگی معا ف کرچکا ہوں۔ مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔ بالفرض کوئی مجھے شہید کردے تو میری طرف سے اُسے میرے حُقوق معاف ہیں۔ وُرَثاء سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں۔ اگر سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شفاعت کے صدقے محشر میں خصوصی کرم ہوگیا تو اِنْ شَآءَ اللہ اپنے قاتل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنّت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ (مدنی وصیت نامہ ، ص9)

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! اپنے اندر عاجزی پیدا کیجئے ، ذاتی مُعاملات میں خلافِ مِزاج باتوں پر صَبْر و تحمل اور عَفْو و دَرگُزر سے ہی کام لیجئے ، کوئی کتنا ہی غُصّہ دِلائے اپنی زَبان اور ہاتھوں کو قابُو میں رکھئے اور رِضائے الٰہی کی خاطِر مُعاف کردیجئے ، اگر آپ کے سامنے کوئی اللہ پاک کی نافرمانی کررہا ہو تو اس کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے اور اس کی آخرت کا بھلا چاہتے ہوئے اچھے انداز سے اس کی اصلاح کیجئے ، اللہ پاک ہمارے ساتھ بھلائی کا معاملہ فرمائے اور ہمیں انتقام کی آگ میں جلنے اور بدلہ لینے کے بجائے مُعافی و دَرگزر کی عادت اپنانےکی توفیق عطافرمائے۔ اٰمین

 


Share