Book Name:Maqbool Hajj ki Nishaniyan

دولت سے مالا مال ہے  تو یہی حجِ مقبول کی نِشانی ہے جبکہ دِکھلاوا،حُبِّ جاہ اور طلبِ شُہرت دیگر نیک اعمال کی قَبولِیَّت کے ساتھ ساتھ حج کی قبولیت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔

       شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنّت،بانیِ دعوتِ اِسْلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تصنیف”رَفِیْقُ الْحَرَمَیْن“میں فرماتے ہیں:یاد رکھئے!ہر عِبادت  کی قَبولِیَّت کے لئے اِخلاص شَرط ہے۔آہ! اب عِلْمِ دین اور اَچّھی صحبت سے دُوری کی بِنا پر اَکثر عبادات رِیاکاری کی نذرہوجاتی ہیں۔ جس طرح اب عُمُوماً ہر کام میں نُمُود و نُمائش کا عمل دَخل ضَروری سمجھا جانے لگاہے ،اِسی طرح حج جیسی عظیم سَعادت بھی دِکھاوے کی بَھینٹ چڑھتی جارہی ہے ، مَثَلاً بے شُماراَفراد حج ادا کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے مُنہ سے کسی حکمت وضَرورت کے بغیر "حاجی" کہتے اور اپنے قلم سے لکھتے ہیں ۔آپ شاید چونک پڑے ہوں گے کہ اِس میں آخِر کیا حَرَج ہے ؟ ہاں ! واقعی اِس صورت میں کوئی حَرَج بھی نہیں کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحِب کہہ کر پکاریں مگر آج کل عجیب تَماشا ہے! نُمُود ونُمائش کی اِنتِہا ہوگئی،حاجی صاحِب حج کو جاتے اورجب لوٹ کرآتے ہیں توبِغیر کسی اچّھی نِیّت کے پوری عمارت  روشنیوں سے سجاتے اور گھر پر’’حج مُبارَک‘‘کا بورڈ لگاتے ہیں،بلکہ توبہ!توبہ!کئی حاجی تو اِحرام کے ساتھ خُوب تصاویر بناتے ہیں۔آخِر یہ کیا ہے؟ کیا بھاگے ہوئے مجرِم کا اپنےربّ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں اِس طرح دُھوم دھام سے جانا مناسب ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ روتے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے، لَرَزتے، کاپنتے ہوئے جانا چاہیے۔

       غالباً نَماز،روزہ وغیرہ کے مقابلے میں حج میں بَہُت زیادہ بلکہ قدم قدم پر’’رِیاکاری‘‘ کے خطرات پیش آتے ہیں، حج ایک ایسی عِبادت  ہے جو ایک توکُھلم کُھلّا کی جاتی ہے اوردوسرے ہر ایک کو نصیب