Book Name:Iman Ke Dako
تھے۔) یہودیوں کی اس دلیل پر عمّار رَضِیَ اللہ عنہ نے فرمایا: باقی باتیں تَو چھوڑو...!! تم یہ بتاؤ! تَورات شریف کے مُطَابِق وعدہ توڑنا کیسا ہے؟ بولے: وعدہ توڑنا تو بہت بُری بات ہے، گُنَاہ کا کام ہے۔ فرمایا: بَس پِھر میں مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ وعدہ کر چکا ہوں کہ مَرتے دَم تک اِیْمان سے نہ پِھروں گا۔ اب چاہے کچھ بھی ہو، میں ہر گز وعدہ نہیں توڑ سکتا۔
یہودی دَم بخُود رَہ گئے، سمجھ گئے کہ عمّار تو ہاتھ نہیں آئیں گے۔ اب یہ حضرت حُذَیْفہ رَضِیَ اللہ عنہ کی طرف متوجّہ ہوئے۔ کہا: حُذَیْفہ تم کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا:
رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِينًا وَّبِمُحَمَّدٍ صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نَبِيًّا
میں اللہ پاک کے رَبّ ہونے پر، اِسْلام کے دِین ہونے پر اور مُحَمَّد صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے نبی ہونے پر راضِی ہوں۔ (اب چاہے مشکل آئے، چاہے پریشانی آئے، اُحُد میں مشقت اُٹھانی پڑے یا بدر میں فتح ملے، مالداری نصیب ہو یا غُربَت کی سعادت ملے، میں بَس اپنے مَحْبوب صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کا غُلام بن کر ہی رہوں گا)۔
یہود نے ان دونوں حضراتِ ذِیْ وقار کے ایسے عاشقانہ جوابات سُنے تو بولے: رَبِّ موسیٰ کی قسم! تمہارے دِلوں نے مُحَمَّد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا جام پی لیا ہے۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! فتنے ہزار ہیں، بَس ہمارا یہی انداز ہونا چاہیے، مُنَاظرے نہ کریں، بحث میں نہ پڑیں، بَس فائنل بات ہے:
اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہے ہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند([2])